"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اور ادریس بابر کے عشرے

دعا ہے کہ عالمی ادارے سے
یہ آخری پروگرام ہو: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دعا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے یہ آخری پروگرام ہو‘‘ کیونکہ یہ آخری پروگرام بھی عوام کی دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم کی دعائیں اب قبول ہونا شروع ہو گئی ہیں اور اگر دعائیں قبول ہونا شروع ہو گئی ہیں تو خطرہ ہے کہ ان کی بددعائیں بھی قبول ہونا شروع ہو جائیں گی جس سے یقینا حکومت کی تشویش میں اضافہ ہو گا، حالانکہ دورانِ حکومت جو کچھ ان کے ساتھ کیا گیا‘ وہ اپنے آپ ہی ہو گیا ہے جبکہ ارادہ ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ اقتدار کے ساتھ ہی یہ چیزیں اپنے آپ ہی کام شروع کر دیتی ہیں اور حکمرانوں کو پتا ہی نہیں چلتا اور اس وقت پتا چلتا ہے جب سارا کام ہو چکا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹ پر ایک پیغام جاری کر رہے اور پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے
پا جانا پاکستان کی جیت ہے: فردوس عاشق
استحکامِ پاکستان پارٹی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانا پاکستان کی جیت ہے‘‘ جبکہ ہم نے حکومت کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے کی حکمت عملی اختیار کر لی ہے کیونکہ اگر ہم بھی حکومت کے مخالف ہوئے تو ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور ہمارے مشترکہ مخالفین کامیاب ہو جائیں گے؛ اگرچہ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ کامیاب انہوں نے بہرصورت ہو ہی جانا ہے کیونکہ پارٹی چھوڑنے والوں کے دل ابھی تک پارٹی کے ساتھ ہیں جن میں خاکسار بھی شامل ہے کیونکہ ہم نے پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ مصلحت اپنائی تھی اور ہم نے دراصل اپنا فرض ہی ادا کیا تھا کیونکہ ہم اپنے فرائض کی ادائی میں کوتاہی کرنے کے عادی نہیں ہیں جبکہ ضمیر جو جاگ کر سو گئے تھے‘ ایک بار پھر بیدار ہونے کو ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ہماری پہلی ترجیح ملکی وقار ہے: وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ''ہماری پہلی ترجیح ملکی وقار ہے‘‘ جو ہمیشہ سے ہماری پہلی ترجیح رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقوامِ عالم میں ملکی وقار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے اور ہر کوئی ہمارے نقشِ قدم پر چلنے کا متمنی ہے جبکہ قرض لینے سے بھی ملکی وقار پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا زیادہ تر حصہ ملکی وقار بلند کرنے پر ہی خرچ ہوتا ہے اور اس قرضے سے اکابرین اپنے اپنے حصے کا ملکی وقار خود بلند کرتے رہتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کیونکہ ایسے کام خاموشی سے اور چھپ کر ہی کرنے چاہئیں تاکہ نمود و نمائش سے پرہیز کیا جا سکے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنا کر
دم لیں گے: سیف الملوک
پاکستان مسلم لیگ نواز لاہور کے صدر ملک سیف الملوک کھوکھر نے کہا ہے کہ ''ہم پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنا کر دم لیں گے‘‘ اور جب تک یہ ایشیا کا ٹائیگر بن نہیں جاتا‘ ہم اپنی سانس روکے رکھیں گے جس کی بھرپور طریقے سے کوشش کر رہے ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کر چکے ہیں؛ تاہم جب سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ شیر بنیادی طور پر ایک سست الوجود جانور ہے اور سارا دن بیکار پڑا رہتا ہے اور اپنے اور بچوں کے لیے شکار خود شیرنی ہی کر کے لاتی ہے، تب سے ہم نے اپنے ارادے میں اس حد تک ترمیم کر لی ہے کہ ایشیا کا ٹائیگر بنانے کے بجائے اسے شیرنی یعنی ٹائیگرس بنایا جائے؛ چنانچہ اس کے لیے ہم نے تازہ دم ہو کر نئے سرے سے جدوجہد شروع کر دی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ناکام معاشی پالیسیوں پر ہم
مانگنے پر مجبور ہیں: خالد سندھو
مرکزی مسلم لیگ کے صدر خالد مسعود سندھو نے کہا ہے کہ ''ناکام معاشی پالیسیوں پر ہم مانگنے پر مجبور ہیں‘‘ بلکہ کسی ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے اگر کہیں سے قرضہ مل جائے تو الٹا خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں کیونکہ شادیانے بجانے والوں کا اس میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ بھی ہوتا ہے اس لیے معاشی پالیسی ایک فالتو اوربیکار چیز ہو کر رہ گئی ہے اور قرضہ اور امداد مانگنا ہی سب سے بڑی معاشی پالیسی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور جب تک ہماری پارٹی برسر اقتدار نہیں آتی‘ اس پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی اس لیے گزارش ہے کہ اسے ایک بار موقع ضرور دیا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ادریس بابر کے دو عشرے:
ایک محبت کے اطراف میں (1)
رات بھر جیسے شہر خالی تھا
چاروں جانب امڈتی راہیں تھیں
دم بہ خود، انتظار گاہیں تھیں...
وہی اس کی کشادہ باہیں تھیں
اور یہی دل سے تنگ سینہ تھا
زینہ تھا...
جو خوشی سے جھومتا تھا
پست ہوٹل کے بالا خانے میں
میں کسی اور ہی زمانے میں
اُس کو بااختیار چومتا تھا
٭......٭......٭
موہنجودڑو
میٹھے پانی شکست کھا چکے ہیں
بحرِ الہامِ شور کی آواز
دل سے اٹھتی ہے سر سے آتی ہے
دور اماوس میں تھر سے آتی ہے
آخری ایک مور کی آواز
جھڑتے پر یہ سوال اٹھا چکے ہیں
کس لیے اتنے دن رہا ہوں میں
بے دلی؍ بے رخی ہے زوروں پر
منحرف سانس گن رہا ہوں میں
انگلیوں سے بچھڑتی پوروں پر
آج کا مطلع
ہوائے وادیٔ دشوار سے نہیں رکتا
مسافر اب ترے انکار سے نہیں رکتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں