پاکستان مزید قرضوں کا متحمل نہیں ہو سکتا: وزیراعظم
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان مزید قرضوں کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘ اگرچہ جو قرضے اب تک لیے گئے ہیں ملک ان کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا تھا؛ تاہم اصل بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے ملکوں نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کا خیال بھی یہی ہے کہ ملک مزید قرضوں کا متحمل نہیں ہو سکتا نہ ہی اب وہ ممالک مزید قرضے دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں‘ اس لیے دونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ نہ قرضے لیے جائیں اور نہ دیے جائیں جبکہ ویسے بھی ان قرضوں کا حقیقی فائدہ تبھی ہوتا اگر ان کا کچھ فائدہ اہلِ حکومت کو بھی پہنچتا جو ہزار کوشش کے باوجود ممکن نہ ہو سکا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ اور مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر رہے تھے۔
دبائو میں آکر پریس کانفرنس کرنے
والوں میں سے نہیں ہوں: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''دبائو میں آکر پریس کانفرنس کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘ کیونکہ میں نے جب پریس کانفرنس کرنا ہوئی تو ڈنکے کی چوٹ پر اور کسی دبائو کے بغیر کروں گا کیونکہ پریس کانفرنس کرنا ایک جمہوری حق ہے اور اگر کوئی حق ہو تو اسے استعمال کرنا چاہئے جبکہ فی الحال تو یہ صورتحال ہے کہ میں حکومت کے ہاتھ ہی نہیں آ رہا اور ہر بار جُل دے جاتا ہوں، بصورت دیگر دبائو میں لانے والے پریس کانفرنس کی سہولت بھی خود مہیا کرتے ہیں جس سے ان کا مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے اور کافی وقت بھی بچ جاتا ہے جو کہ اچھی بات ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
واپسی پر جیل بھی جانا پڑا تو پروا نہیں: نوازشریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''واپسی پر جیل بھی جانا پڑا تو پروا نہیں‘‘ لیکن اس کے باوجود واپس نہیں آ رہا کیونکہ وہاں پسند کا کھانا نہیں ملتا، اس کے علاوہ آج کل گرمی بھی بہت ہے اور اگر جیل میں اے سی وغیرہ کا انتظام کردیا جائے تو واپس آ سکتا ہوں لیکن میرا نہیں خیال کہ ڈاکٹرز ان حالات میں واپسی کی اجازت دیں گے کیونکہ واپسی کا خیال آتے ہی طبیعت اوپر نیچے ہونے لگتی ہے جس کی بنا پر فوری پاکستان کی جانب سفر سے منع کر دیا جاتا ہے، ورنہ واپسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ نیز میری واپسی ایک سیاسی عمل ہو گا اور ملک میں سیاسی صورتحال ابھی واپسی کے حق میں نہیں ہے۔ آپ اگلے روز دبئی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
گورنر ہوتے ہوئے بھی چیئرمین پی ٹی آئی
کی پالیسیوں سے متفق نہیں تھا: چودھری سرور
مسلم لیگ (ق) کے چیف آرگنائزرچودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ ''گورنر ہوتے ہوئے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کی پالیسیوں سے متفق نہیں تھا‘‘ اور اسی اختلاف کی بنا پر مجھے گورنری سے ہٹایا گیا تھا کہ میں حکومت کی باتیں دوسروں تک پہنچا دیتا تھا حالانکہ اس کا مقصد محض ایک خیر سگالی کی فضا پیدا کرنا تھا جو جمہوریت کے فروغ کے لیے بے حد ضروری تھا، اور جمہوریت کی زیادہ سے زیادہ خدمت اسی طرح کی جا سکتی تھی جس کے لیے گورنری تک کی قربانی دینا پڑی جو ہمیشہ یادگار رہے گی کیونکہ جمہوریت کو اس قسم کی قربانیوں کی بے حد ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت سے جمہوریت کا بول بالا ہو رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
سازشی ٹولہ ملک اور عوام کو لوٹ
کر فرار ہو گیا: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ نواز کی مرکزی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''سازشی ٹولہ ملک اور عوام کو لوٹ کر فرار ہو گیا‘‘ جس میں سے کچھ لوگ تو واپس آ گئے ہیں اور کچھ ابھی تک ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ملک سے فرار کرنے کے لیے بھی انہوں نے مختلف حیلے بہانوں کا استعمال کیا تھا لیکن آخر واپس انہیں آکر حساب دینا ہی پڑے گا، اس لیے اب بھی وقت ہے آکر تلافی کروا لیں کیونکہ بڑے لیڈروں کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ نہ ہی ملک سے فرار ان کی شخصیت کے شایانِ شان ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
اور‘ اب ہڈالی سے گل فراز کی غزل:
اتنا بھی اب مت گھٹا‘ کچھ تو زیادہ رہنے دے
بلکہ میں تو کہتا ہوں سارے کا سارا رہنے دے
کیوں جھگڑتا ہے تُو اتنا نفع و نقصان پر
فائدہ اپنا اٹھا‘ میرا خسارہ رہنے دے
مجھ کو لے جا بس ضرورت کے مطابق کیونکہ میں
اوروں کو بھی چاہیے ہوں‘ کچھ بقایا رہنے دے
تاکہ پوری ہو کمی کچھ‘ یہ خزانہ سارا کھول
کرنا ہے تو سب فراہم کر‘ وگرنہ رہنے دے
تو جو چاہے تو پلٹ سکتی ہے کایا بھی یہاں
تو جو چاہے تو یہی حالت ہمیشہ رہنے دے
سرسری سی ڈالی ہے ان وادیوں پر اِک نظر
کچھ قیام اور اس علاقے میں ہمارا رہنے دے
مستقل کیا عارضی بھی رکھ لے تو کافی سمجھ
یہ غنیمت ہے جو وہ فی الحال تھوڑا رہنے دے
رہنے دینا چاہو بھی تو رہ نہیں سکتا ہوں اب
یاد ہے میں نے تجھے کتنا کہا تھا رہنے دے
جیسا تُو کہتا ہے ویسا ہو نہیں سکتا کبھی
ایسا کب کا ہو چکا‘ آگے بھی ایسا رہنے دے
پہلے بھی رہتا رہا‘ اور رہ لوں گا آئندہ بھی
یوں ہی رہنا آ گیا ہے‘ اب مداوا رہنے دے
آج کا مطلع
موسم کا ہاتھ ہے نہ ہوا ہے خلاؤں میں
پھر اس نے کیا طلسم رکھا ہے خلاؤں میں