محتاجی کی زنجیریں توڑ دیں‘
کشکول توڑنا ہوگا: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''محتاجی کی زنجیریں توڑ دیں‘کشکول توڑنا ہوگا‘‘ کیونکہ اب جبکہ مانگنے کے کئی جدید طریقے ایجاد ہو چکے ہیں تو کشکول رکھنے کی کیا ضرورت ہے، ویسے بھی اب کشکول میں کوئی ڈالتا بھی کچھ نہیں ہے بلکہ اسے دیکھتے ہی ہر کوئی منہ پھیر لیتا ہے جبکہ محض مشکل بتانے سے بھی مقصد حاصل ہونا چاہیے جس سے عزت بھی مجروح نہ ہو اور کام بھی ہو جائے، نیز کشکول آگے کرنے کی بجائے ہاتھ بڑھانے سے بھی مقصد حاصل ہو جانا چاہیے کیونکہ مانگنے کا جدید ترین اور مؤثر ترین طریقہ یہی ہے، علاوہ ازیں کشکول توڑ کر بھی کچھ فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ٹوٹا ہوا کشکول بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز قوم سے خطاب اور مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف گھیرا
تنگ ہو رہا ہے: فیصل واوڈا
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے منحرف رہنما فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ ''چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے‘‘ اور یہ کافی عرصے سے تنگ ہو رہا ہے لیکن ابھی تک اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کا نام نہیں لے رہا اور اب تو انتظار کرنے والوں کی آنکھیں تک دُکھنا شروع ہو گئی ہیں جبکہ ملکی معاملات کو اس قدر سست رفتاری سے نہیں چلنا چاہئے کیونکہ اس طرح کسی منزل کی طرف نہیں بڑھا جا سکتا اور آہستہ آہستہ لوگوں کی امیدوں پر پانی پھرنا شروع ہو جاتا ہے جو کسی قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور ان لوگوں کی مایوسی کا باعث بنتا ہے جو ایسی امیدوں ہی پر زندہ چلے آتے ہیں‘ امیدیں بہرحال زندہ رہنی چاہئیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
عدلیہ کے تین اہم فیصلے دن میں
تارے دکھا سکتے ہیں: شیخ رشید
پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''سپریم کورٹ کے تین اہم فیصلے دن میں تارے دکھا سکتے ہیں‘‘ جس کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو تیار رہنا چاہئے بلکہ وہ اگر چاہیں تو اختر شماری بھی کر سکتے ہیں کیونکہ دن میں تارے دیکھنے کی سعادت آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی جس کے لیے کسی دوربین وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں رہے گی؛ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سرفرازی دونوں میں سے کسے حاصل ہوتی ہے جبکہ دونوں بجاطور پر اس کے مستحق ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں کی قسمت کام کر جائے اور ان فیصلوں سے دونوں فریق مستفید ہو سکیں‘ اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ یہ سعادت کس کو نصیب ہوتی ہے؛ ایک کو یا دونوں کو۔ آپ اگلے روز سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے ایک بیان پر تبصرہ کر رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) نے ملکی اثاثوں کو ہمیشہ
عوام کیلئے استعمال کیا: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''مسلم لیگ (ن) نے ملکی اثاثوں کو ہمیشہ عوام کیلئے استعمال کیا‘‘ جبکہ وہ اپنے بے شمار اثاثوں کو بھی عوام کیلئے استعمال کر رہی ہے کیونکہ دوسرے لاتعداد ملکوں میں موجود اثاثے پاکستان اور عوام ہی کی شان و شوکت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں اور عوام اس پر پھولے نہیں سما رہے اور اس قربانی پر تہ دل سے ممنون ہیں کہ
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
جبکہ ان اثاثوں کو کسی ذاتی مقصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ آپ اگلے روز قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس میں شریک تھیں۔
ملک کی ترقی و خوشحالی نواز شریف‘ شہباز
شریف کی مرہونِ منت ہے: سلیم رضا
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی اور لیگی رہنما محمد سلیم رضا نے کہا ہے کہ ''ملک کی ترقی و خوشحالی نواز شریف اور شہباز شریف کی مرہونِ منت ہے‘‘ کیونکہ ملک نے فنِ قرض خوری میں اتنی ترقی کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی جبکہ ملک پہلے ہی ان کی مہربانیوں کا مقروض چلا آ رہا ہے کہ انہوں نے بڑی محنت سے ملک کو اس قابل بنایا کہ اب یہ قرض لینے والے ٹاپ کے ملکوں میں شامل ہو چکا ہے جبکہ فی زمانہ کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کا یہی راز بھی یہی ہے بلکہ لیڈرشپ کی یہ کوششیں عالمی سطح کی ہیں کیونکہ پہلے روپیہ باہر بھیج کر کئی بیرونی ملکوں کو ترقی و خوشحالی کی نعمت سے سرفراز کیا گیا جو ہمیشہ ان کی دریا دلی کے معترف اور شکر گزار رہیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
خالی پیار سے بھرا پیالا توڑا جا سکتا ہے
اور بھی کتنے کام پڑے ہیں‘ سوچا جا سکتا ہے
میں نے آنکھیں کھول کے دیکھا ہے تجھ کو لیکن
تجھے کھلی آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے
دونوں کے سُرتال بھی آخر اب تو ایک ہوئے ہیں
ایک ساتھ ہی اب رویا اور گایا جا سکتا ہے
دھوکے بہت دیے ہیں اس نے چھوٹے ہوں کہ بڑے ہوں
ایک فریب تو اُس کا اور بھی کھایا جا سکتا ہے
اُس کا مول چُکانے کی ہم میں نہ سکت ہو بے شک
اسی بہانے اُس کو دیکھا پرکھا جا سکتا ہے
خاموشی سے اُس کی جانب چلتے جانا اپنا
اتنا بے آواز سفر تو کاٹا جا سکتا ہے
رُکنے اور ٹھہرنے کا وہ نام نہ لے گا لیکن
اُسے کبھی دل کے رستے سے گزارا جا سکتا ہے
دروازہ بیگانہ روی کا کھلا تو ہوا ہے آخر
گھیر گھار کر اُسے یہاں تک لایا جا سکتا ہے
جنگ جیتنے کو بھیجا تو جا سکتا ہے ظفرؔ کو
یہ جوان بے موت وہاں پر مارا جا سکتا ہے
آج کا مطلع
لب پہ تکریمِ تمنائے سبک پائی ہے
پسِ دیوار وہی سلسلہ پیمائی ہے