75سالوں میں جو عادتیں پڑیں‘ ان
کے بتوں کو توڑنا آسان نہیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''75سالوں میں جو عادتیں پڑیں‘ ان کے بتوں کو توڑنا آسان نہیں‘‘ اور جو کچھ ہم نے اپنے ادوارِ حکومت میں کیا ہے‘ انہی عادتوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا ہے اور اس میں ہمارے ارادوں کا ہرگز کوئی دخل نہیں تھا ورنہ ہم نے تو کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور اثاثے بنانا کبھی اچھا نہیں سمجھا اور اگر آئندہ بھی ایسا کچھ سرزد ہوا تو انہی عادتوں سے مجبور ہو کر ہوگا جبکہ عادتیں قبر تک ساتھ جاتی ہیں اور یہ ایک ایسے بت کی شکل اختیار کر چکی ہیں کہ اسے توڑنا اب ہمارے اختیار میں نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
الیکشن میں تاخیر پر تحریک چلائیں گے: لیاقت بلوچ
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ''انتخابات میں اگر تاخیر روا رکھی گئی تو ہم تحریک چلائیں گے‘‘ اگرچہ حالیہ تحریکوں کا حشر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اس لیے یہ محض وقت ہی ضائع کرنے کے مترادف ہوگا لیکن چونکہ ہم وقت کے معاملے میں مکمل طور پر خود کفیل واقع ہوئے ہیں اور ضائع کرنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت کی کافی مقدار موجود ہے‘ اس لیے یہ عیاشی آسانی کے ساتھ افورڈ کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ وقت ضائع کرنے میں بھی کافی وقت خرچ ہوتا ہے لیکن ہم آج کل کافی فارغ ہیں اور ہمارے پاس کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں ماسوائے اپنی قیادت کی روزانہ کی تقریریں سننے کے‘ اس لیے ہم نتائج سے بے پروا ہو کر یہ تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز منصورہ میں یوتھ لیڈر شپ کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈیمز ہماری لائف لائن‘ تکمیل پر
کمپرومائز نہیں کریں گے: خورشید شاہ
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''ڈیمز ہماری لائف لائن ہیں‘ ان کی تکمیل پر کمپرومائز نہیں کریں گے‘‘ اگرچہ ہم نے کالا باغ ڈیم کی بار بار اور ڈٹ کر مخالفت کی تھی کیونکہ ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ یہ بھی ہماری لائف لائن ہے جبکہ اب کسی نے ہمیں بتایا ہے تو ہمیں اس راز سے آگاہی ہوئی ہے۔ نیز اس وقت کے متعلقہ سیاستدان اور افسران چونکہ بے حد ضرورتمند تھے‘ اس لیے ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا بے حد ضروری تھا جبکہ اس وقت بھی کمر توڑ مہنگائی کا دور شروع ہو چکا تھا‘ اس لیے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی‘ اگرچہ حاجت مندی کی صورتحال اب بھی وہی ہے لیکن اب ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کی ایک میٹنگ میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
آئین میں الیکشن ملتوی کرنے
کی کوئی گنجائش نہیں: مصدق ملک
وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''آئین میں الیکشن ملتوی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں‘‘ اگرچہ عدلیہ کے احکام کو نظرانداز کرنے کی پوری پوری گنجائش موجود ہے جس کا ہم نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا لیکن اب چونکہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے مطلع آہستہ آہستہ صاف ہو رہا ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ آئین پر عمل کرنے کا بھی وقت آ گیا ہے۔ اگرچہ صورتحال کچھ زیادہ واضح نہیں ہے اور خطرات ابھی تک موجود ہیں لیکن کبھی تو الیکشن کا رسک لینا ہی پڑے گا کہ آخر بکرے کی ماں کب تک اس کی خیر مناتی رہے گی جبکہ بکرا خود بھی سب کچھ اچھی طرح جان چکا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
کشکول نہیں‘ ڈرم لے کر
بھیک مانگ رہے ہیں: لطیف کھوسہ
سینئر قانون دان لطیف خان کھوسہ نے کہا ہے کہ ''حکمران کشکول نہیں‘ ڈرم لے کر بھیک مانگ رہے ہیں‘‘ کیونکہ ایک تو کشکول کا حجم بہت کم ہوتا ہے‘ دوسرے اس کے بارے میں گمان ہوتا ہے کہ ذاتی مقصد کے لیے ساتھ لیے ہوئے ہیں اور تیسرے کشکول پر نظر پڑتے ہی بھیک دینے والے سٹ پٹا جاتے اور منہ پھیر لیتے ہیں جبکہ ڈرم کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض رفاہِ عامہ کی خاطر ہے جو کہ عین کارِ ثواب بھی ہے‘ بھیک لینے والے کے لیے بھی اور دینے والے کے لیے بھی‘ دوسری عقلمندی حکومت نے یہ کی ہے کہ ڈرم کو پہیے لگا دیے ہیں تاکہ اسے آگے پیچھے کرنے میں آسانی رہے جس پر حکومت اضافی داد و تحسین کی مستحق ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد:
مٹی سے ایک مکالمہ
ماں کہتی ہے ‘جب تم چھوٹے تھے تو ایسے اچھے تھے
سب آباد گھروں کی مائیں‘پیشانی پر بوسہ دینے آتی تھیں
اور تمہارے جیسے بیٹوں کی خواہش سے
ان کی گودیں بھری رہا کرتی تھیں ہمیشہ
اور میں تمہارے ہونے کی راحت کے نشے میں
کتنی عمریں چور رہی تھی
اِک اِک لفظ مرے سینے میں اٹکا ہے
سب کچھ یاد ہے آج ‘کہ میں اک عمر نگل کر بیٹھا ہوں
عمر کی آخری سرحد کی بنجر مٹی
جب سے ماں کے ہونٹوں سے گرتے لفظوں میں کانپتی ہے ‘میری سانس تڑپ اٹھتی ہے
اس کے مٹتے نقش مرے اندر ‘کہرام سی اک تصویر بنے ہیں
زندگیوں کے کھوکھلے بن پر
آنسوؤں لپٹی ہنسی مرے ہونٹوں پہ لرزتی رہتی ہے
اچھی ماں ‘عمر کے چلتے سائے کی تذلیل میں
تیرے لہو کے رس کی لذت‘تیرے غرور کی ساری شکلیں
ان رستوں میں مٹی مٹی کر آیا ہوں
پتھریلی سڑکوں پہ اپنے ہی قدموں سے
خود کو روند کے گزرا ہوں ‘میرے لہو کے شور میں تیری
کوئی بھی پہچان نہیں ہے
تیری اجلی شبیہ کچھ ایسے دھندلائی ہے
تجھ سے وصل کی آنکھ سے‘بینائی زائل ہے
میں تیرے دردوں کا مارا
تیری ہی صورت میں بھی
اک جیون ہارا
آج کا مطلع
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا