تحریک انصاف پر پابندی
نہیں لگا رہے: رانا ثنا
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ہم تحریک انصاف پر پابندی نہیں لگا رہے‘‘اور اس کی فی الحال ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا کام شروع ہو گیا ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی کی سزایابی اور نااہلی کے بعد مزید کارروائی کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اگر پی ٹی آئی کی سپورٹ اس کے باوجود بھی جاری نظر آئی تو پابندی لگانے کا فیصلہ بھی خارج از امکان نہیں اور اگر کسی بات کا سوچ لیں تو اس پر عملدرآمد بھی کرکے دکھا دیتے ہیں کیونکہ مزہ تو تب ہی آئے گا جب میدان مکمل طور پر صاف ہوگا کیونکہ ہم ویسے بھی کافی صفائی پسند واقع ہوئے ہیں اور کئی اہم خطرات ابھی تک موجود ہیں جن کے پیش نظر انتخابات ملتوی بھی کیے جا سکتے ہیں تاکہ تب تک میدان مکمل طور پر صاف ہو جائے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے: عبدالعلیم خان
استحکامِ پاکستان پارٹی کے چیئرمین عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ '' انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے‘‘ اس لیے ہم بھی وہی کچھ کاٹیں گے جو ہم نے بویا ہے جبکہ دیگر بھی وہی کاٹیں گے جو وہ بوئیں گے اور ہمارے بیشتر لوگ چونکہ اُدھر سے ہی ادھر آئے ہیں لہٰذا اب جبکہ حکومت رخصت ہونے والی ہے تو جو جو سختیاں ان پر روا رکھی گئیں‘ وہ ان کے دماغ میں تازہ ہو جائیں گی اور خطرہ ہے کہ وہ ایک بار پھر پریس کانفرنسیں کرتے نظر نہ آئیں اور اس طرح ہمیں بھی ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑ جائیں۔ آپ اگلے روز چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
پارٹی عہدیدار ‘نہ وزیر ہوں، جو ذمہ داری
ملی ادا کروں گا: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''میں نہ وزیر ہوں اور نہ پارٹی عہدیدار‘ جو ذمہ داری ملی ادا کروں گا‘‘ اور ایک ذمہ داری نگران وزیراعظم کی بھی موجود ہے جس سے کسی حد تک ماضی کی تلافی ہو سکتی ہے جبکہ میں نے نئی جماعت بنانے کا عندیہ بھی دے رکھا ہے جس کے ردعمل ہی میں قیادت کو خیال آیا ہوگا کیونکہ بچہ جب تک روئے نہ‘ ماں بھی اس پر متوجہ نہیں ہوتی، اور جس سے سینئر نائب صدر کے عہدے سے بلاوجہ ہٹانے کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے اور جس کا ایک خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ نگران حکومت کے کافی طول کھینچنے کے امکانات بھی واضح ہیں۔ آپ اگلے روز تلہ گنگ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اگر باجی کہہ کر بھی پکارا جائے تو برا نہیں مناتی: میرا
سینئر اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ ''مجھے اگر باجی کہہ کر بھی پکارا جائے تو برا نہیں مناتی‘‘ بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اگر خالہ جان یا پھوپھی جان کہہ کر بھی پکارا جائے تو برا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ اس سے بزرگی کا احساس ہوتا ہے اور بزرگوں کا احترام ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور وہی قومیں دنیا میں ترقی کرتی ہیں جو اپنے بزرگوں کا احترام کرتی ہیں اور ویسے بھی اگر آدمی کا دل جوان ہو تو بڑھاپا اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا اور سچی بات بھی یہی ہے۔آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے انٹرٹینمنٹ پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اے آسماں نیچے اتر
صاحب طرز اور رجحان ساز شاعر محمد اظہار الحق کا یہ پانچواں مجموعۂ کلام ہے جسے جہلم سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب دادی جان گُہر بانو اور دادا جان مولانا غلام محمد کے نام ہے۔ پسِ سرورق خورشید رضوی، افتخار عارف اور اس خاکسار کی تحسینی آرا درج ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ، محمد منشایاد اور انتظار حسین کی مختصر آرا بھی درج ہیں۔ علاوہ ازیں شاعر کی تصویر اور مختصر حالاتِ زندگی ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کے مطابق ''اظہار الحق کی شاعری ایک اجڑا ہوا خیمہ ہے، ایک رخسار زیرِآب ہے، اور ایک سفید چادرِ غم ہے۔ وہ اس اجڑے ہوئے خیمے کے نوحے لکھتا ہے اور اسے پھر سے آباد دیکھنا چاہتا ہے۔ اس رخسار زیرِ آب کی حدّت محسوس کرتا ہے اور ایک سفید چادرِ غم اوڑھے یوں کپکپاتا ہے جیسے کسی صحیفے کے اترنے کا منتظر ہو‘‘۔
ابتدا میں شاعر کا یہ شعر درج ہے:
بہت بے رحم ہو‘ ادنیٰ نسب ہو‘ جانتا ہوں
مجھے تم اور دنیا! میں تمہیں پہنچانتا ہوں
کتاب میں نعتیں، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں، گیٹ اَپ عمدہ۔
اور‘ اب آخر میں اس مجموعہ میں سے یہ غزل:
چہار جانب سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہوں
کوئی محافظ تو ہے جو اب تک بچا ہوا ہوں
مجھے پہنچنا ہے شام تک دوسرے کنارے
نہ جانے کیوں خیمۂ بدن میں رکا ہوا ہوں
دعا کرو بن سکوں گلوبند عاشقوں کا
میں تارِ افسوس سے غموں پر کَڑھا ہوا ہوں
میں اسمِ اعظم ہوں یا شب قدر‘ جو بھی کچھ ہوں
عیاں نہیں! آیتوں کے اندر چھپا ہوا ہوں
کبھی مرے سامنے ہیں عفریت دست بستہ
کبھی میں دیمک زدہ عصا پر کھڑا ہوا ہوں
میں اپنے ہی در پہ اپنے ملنے کا منتظر ہوں
ملوں گا لیکن ابھی تو باہر گیا ہوا ہوں
مجھے بتایا گیا تھا پرہیز مہ رخوں سے
میں کر نہ پایا‘ سو عشق میں مبتلا ہوا ہوں
اب اس کا کیا ذکر چاند تھا یا چراغ تھا میں
جبیں تھا یا کوئی چشم‘ اب تو بجھا ہوا ہوں
آج کا مطلع
پیدا یہ غبار کیوں ہوا ہے
اور آخری بار کیوں ہوا ہے