حکومت کا کام لوگوں کی زندگی میں
آسانی پیدا کرنا ہے:نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ''حکومت کا کام لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنا ہے‘‘ اور یہ کام چونکہ فوری توجہ کا حامل تھا اس لیے آتے ہی اس سلسلے میں کارروائی شروع کر دی ہے اور پٹرول، ڈیزل اس قدر مہنگا کر دیا ہے کہ لوگ اپنے آپ تانگوں اور گدھا گاڑیوں کی طرف رجوع کریں گے اور یہ بات انتہائی تسلی بخش ہے کہ گھوڑے اور گدھے ڈیزل اور پٹرول پر نہیں چلتے اور لوگوں کی زندگیوں میں ایک بنیادی آسانی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آسانی سے اس تبدیلی کی طرف رجوع کر لیں بلکہ اگر زیادہ کفایت شعاری کا مظاہرہ کر سکیں تو پیدل چلنے کی بھی عادت ڈال لیں کیونکہ پیدل چلنا صحت کے لیے بہت بہتر نتائج پیدا کرتا ہے۔ آپ اگلے روز مختلف سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
خدا کا شکر ہے کہ بھاری ذمہ داری
سے سرخرو فرمایا: شہبازشریف
سابق وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''خدا کا شکر ہے کہ اس نے بھاری ذمہ داری سے سرخرو فرمایا‘‘اور اپنے، اہلِ خانہ اور پارٹی کے دیگر کئی عمائدین کی مقدمات سے جان خلاصی کے اسباب پیدا کر سکا جو یقینا ایک قابلِ فخر کارنامہ تھا۔ علاوہ ازیں پارٹی کو ایک معقول عرصے تک انتخابات کے جھنجھٹ سے نجات بھی دلا کے رکھی ورنہ وہ اب تک سرکاری مہمان خانے کا لطف اٹھا رہے ہوتے۔ نیز ضامن ہونے کے باوجود بھائی صاحب کو وطن واپسی سے روکے رکھنے میں کامیاب ہوا جبکہ کئی دیگر کارگزاریاں اس کے علاوہ ہیں جن سے سرخرو ہو کر خداکا شکر بجا لا رہا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں رانا مشہود سے ملاقات کر رہے تھے۔
نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں: صمصام بخاری
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر سید صمصام بخاری نے کہا ہے کہ ''میں نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں‘‘ اور تقریباً ساڑھے تین ماہ کے غور و غوض کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ اقدام نہایت قابلِ مذمت تھا جبکہ مزید تاخیر سے بچنے کے لیے میں نے پریس کانفرنس کا بھی سہارا نہیں لیا جسے چند روز کے لیے ملتوی کردیا ہے جو پارٹی چھوڑنے کے لیے آج کل ضروری سمجھی جاتی ہے اور اتنے عرصے بعد اس مذمت کو دیر آید‘ درست آید بھی کہا جا سکتا ہے، نیز 'سہج پکے سو میٹھا ہو‘ والے محاورے کا بھی اس پر پورا اطلاق ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نوازشریف الیکشن سے قبل پاکستان
میں ہوں گے:سیف الملوک
مسلم لیگ نواز کے رہنما ملک سیف الملوک کھوکھر نے کہا ہے کہ ''نوازشریف الیکشن سے قبل پاکستان میں ہوں گے‘‘ اور چونکہ الیکشن کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا اس لیے انہیں بیرونِ ملک اپنے علاج معالجے کو پوری تسلی سے جاری رکھنا چاہئے۔ اگرچہ ان کی واپسی کی تاریخیں مسلسل دی جاتی رہیں گی تاکہ جماعت اور عوام کا مورال بلند رہے‘ نیز نگران حکومت کو بھی یہ سوٹ کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہے اس لیے اس کی خواہش بھی یہی ہو گی کہ الیکشن کھٹائی میں پڑا رہے جبکہ الیکشن اگر ہوئے بھی تو وہ اپنے نتائج کے حوالے سے قائدِ محترم کی صحت پر ناگوار اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز یوم آزادی کے حوالے سے ایک پارٹی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
انسان کو اپنی ذہنی صحت کا خیال
رکھنا چاہئے: نازش جہانگیر
اداکارہ مہوش جہانگیر نے کہا ہے کہ ''انسان کو اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا چاہئے‘‘بلکہ اس سے بھی پہلے اپنا ذہنی معائنہ کرانا چاہئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنے کے قابل بھی ہے یا نہیں، اور اگر معائنے کے بعد یہ معلوم ہو کہ وہ اس قابل نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ اول تو بذریعہ علاج اس کو درست کرائے یا پھر اسے قدرت پر چھوڑ دے کیونکہ ذہنی نااہلی ایک عادت کی طرح ہوتی ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا انسانی سطح پر ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ عادتیں تو آخر تک ساتھ رہتی ہیں۔ آپ اگلے روز انسٹاگرام پر اپنا ایک پیغام نشر کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری:
جس دن رستہ بھولے تھے
اپنے گھر آ نکلے تھے
آنکھیں اُس کی اپنی تھیں
آنسو جانے کس کے تھے
یاد ہے جب ہر دھڑکن پر
ہم تیرے ہمسائے تھے
آدھی شب کچھ پہرے دار
سورج ڈھونڈتے پھرتے تھے
ایک چراغ ہی روشن تھا
باقی گھور اندھیرے تھے
(عمر فرحت، راجوری‘ مقبوضہ کشمیر)
یہ زمیں یوں ہی لگاتار چلے گی صاحب
اس کا مطلب ہے کہ بیکار چلے گی صاحب
اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے شاید
جو ہوا شہر میں اس بار چلے گی صاحب
جس طرح آپ چلانے میں ہیں مصروف اسے
اس طرح کیسے یہ سرکار چلے گی صاحب
پوچھتا کون پیادوں کو کہ دستور نہ تھا
جب چلی مرضیٔ سردار چلے گی صاحب
اور پھر چاروں طرف ٹھنڈ سی پڑ جائے گی
کچھ ہی دن گرمیٔ بازار چلے گی صاحب
جب کسی طور بھی اظہار نہ ہو پائے گا
تب کہیں محفلِ اشعار چلے گی صاحب
پگڑیاں باندھ کے سب دشت میں آ بیٹھیں گے
اور خوشبوئے سماوار چلے گی صاحب
(محمد حنیف)
آج کا مقطع
ہم پہ دنیا ہوئی سوار ظفرؔ
اور ہم ہیں سوار دنیا پر