عمران خان اداروں کے خلاف ا نقلاب
لانا چاہتے تھے مگر ناکام رہے: پرویز خٹک
سابق وزیراعلیٰ پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''عمران خان اداروں کے خلاف ا نقلاب لانا چاہتے تھے مگر ناکام رہے‘‘ اور انہیں اس میں ناکام کرنے میں سب سے زیادہ حصہ خاکسار کا ہے کیونکہ میں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ میں انہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا چاہے ادھر کی دنیا اُدھر ہو جائے، اس لیے میری ان خدمات کا بھی خیال رکھنا چاہئے جبکہ میں نے اپنی سیاسی جماعت بھی بنالی ہے، اگرچہ وہ انہی لوگوں پر مشتمل ہے جو چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ تھے اور ان پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر میری مدد کی جائے تو میں بغیر کسی تگ و دو کے حکومت کا حصہ بن سکتا ہوں اور اس کے لیے صرف ایک اشارہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
90دن میں الیکشن کا مطالبہ
سیاسی بیانیہ ہے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''90دن میں الیکشن کا مطالبہ سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش ہے‘‘ جبکہ ہمارے قائد کے مطابق سیاسی بیان سراسر غلط ہوتا ہے، علاوہ ازیں سیاسی بیانیہ بنانے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ ملک عزیز میں اب سیاست رہ ہی کہاں گئی ہے کیونکہ اس کی بنیاد انتخابات ہیں لیکن ان کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا اور ان کے انعقاد کا امکان اتنا ہی ہے جتنا قائدِ محترم کی واپسی کا، اور اب انتخابات کا مطلب صرف اس کے بارے میں بیانات ہیں کہ آئے روز اس کی تاریخیں دی جاتی رہیں۔ باقی درجہ بدرجہ خیریت ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنا بیان جاری کر رہے تھے۔
ہر گھر کو 300یونٹ مفت بجلی
ہمارا منشور ہے: فردوس عاشق
استحکام پاکستان پارٹی کی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''ہر گھر کو 300یونٹ مفت بجلی ہمارا منشور ہے‘‘ اور بجلی بلوں کے ستائے ہوئے لوگ جس انداز میں احتجاج کر رہے ہیں‘ اس سے ہمیں اپنے منشور کی صورت گری میں آسانی ہو رہی ہے‘ اسی طرح عوام کے احتجاج کو دیکھ دیکھ کر ہم اپنا منشور ترتیب دیتے رہیں گے اور اس سے ہمارے لیے اپنی پارٹی کا منشور بنانا کافی آسان ہو جائے گا اس لیے عوام کو چاہئے کہ زیادہ مستقل مزاجی سے یہ کام جاری رکھیں جبکہ دنیا ویسے بھی چند روزہ اور دُکھوں کا گھر ہے اس لیے وہ کمرکس کر باندھ لیں اور ہمیں اپنے منشور پر عمل کرنے کا موقع فراہم کریں۔ آپ اگلے روز لاہور میں بجلی کی گرانی پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
لوگ قرضے لے کر اور زیور بیچ کر بجلی
کے بل ادا کر رہے ہیں: عابد شیر علی
مسلم لیگ نواز کے رہنما عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''لوگ قرضے لے کر اور زیور بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں‘‘ جس سے ان کی فرض شناسی کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ قرض لینا کوئی بُری بات نہیں ہے کہ سارا ملک ہی قرض پر چل رہا ہے اور اس طرح چلتا نظر آتا ہے جبکہ چوری اورڈکیتی کی وارداتوں کی یلغار کے پیش نظر زیور گھر میں رکھنا ویسے بھی پرلے درجے کی حماقت ہے اور اس سے کسی نہ کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے بجائے زیورِ تعلیم پر ساری توجہ خرچ کرنی چاہئے جسے چوری کا خطرہ ہے نہ ڈاکے کا، علاوہ ازیں گھر کا دیگر سامان بھی اس مد میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے کیونکہ سامان تو آدمی پھر بھی بنا سکتا ہے، لہٰذا عوام کو چاہئے کہ اسی جانفشانی سے بجلی بل ادا کرتے رہیں تاکہ اشرافیہ کو مفت بجلی فراہم ہوتی رہے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قوم نواز شریف کی آمد کا شدت
سے انتظار کر رہی ہے: امجد نذیر
(ن) لیگ کے رہنما امجد نذیر بٹ نے کہا ہے کہ ''قوم نواز شریف کی آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے‘‘ اور اس طرح سرکاری مہمان خانہ بھی اسی شدت سے ان کی آمد کا منتظر ہے اور دونوں میں سخت مقابلے کی ایک فضا قائم ہو چکی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ وہ دونوں کی طرف سے اپنے استقبال کی تاب نہیں لا سکتے اس لیے دونوں کو یہ بات پلے سے باندھ لینی چاہئے کہ میاں صاحب نے لندن کے پُرفضا مقام کو تب تک چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا جب تک یہاں کی فضا ان کے لیے سازگار نہیں ہو جاتی لہٰذا تب تک وہ واپس آنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، اس لیے دونوں اپنی اپنی خاطر جمع رکھیں۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں سجاد بلوچ کے تازہ شعری مجموعے ''رات کی راہداری میں‘‘ سے یہ غزل:
پڑ گئی شام جب اس راہ میں بیٹھے بیٹھے
موجۂ گرد نے پوچھا یہاں کیسے بیٹھے
ہر مسافر پہ ہمیں تیرا گماں ہوتا تھا
گرد کے ساتھ کئی بار ہیں اُٹھے بیٹھے
اُسے معلوم تھا یہ شامِ جدائی ہے سو ہم
آخری بار بہت دیر اکٹھے بیٹھے
میں نے کیا کرنا ہے اس قیمتی گلدستے کو
دوست ہے وہ تو مصیبت میں سرہانے بیٹھے
تو گھنا پیڑ سہی پر مرے دشمن کا ہے
اب مرے جیسا ترے سائے میں کیسے بیٹھے
بیٹھے ہیں اگلی نشستوں پہ تجھے دیکھنے کو
ورنہ ہم خالی کلاسوں میں بھی پیچھے بیٹھے
کیا مکدّر تھی فضا دل کی مگر اب دیکھو
چند بوندیں پڑیں اور کیسے بگولے بیٹھے
ہم ہی تھے محفلِ یاراں ترے بنیاد گزار!
رہ گئے ہم ہی سرِ شام اکیلے بیٹھے
آج کا مقطع
کسی سند کی ضرورت نہیں پڑی ہے ظفرؔ
ہمارا عیب ہی آخر ہنر ہمارا ہوا