دریائے ستلج کے سیلاب زدگان کو
تنہا نہیں چھوڑیں گے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''دریائے ستلج کے سیلاب زدگان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ کیونکہ ہم نے کبھی عوام کو تنہا نہیں چھوڑا‘ جو تنہا چھوڑے جانے پر من مانیاں کرنے لگتے ہیں اور کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا انہیں سیدھا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کسی قیمت پر بھی تنہا نہ چھوڑا جائے؛ چنانچہ کم از کم سندھ کی حدتک ہم نے عوام کو بالکل بھی تنہا نہیں چھوڑا ہوا، اسی لیے ان کی عادتیں بھی زیادہ بگڑنے نہیں پائیں اور انہیں اپنی حدود و قیود کا اچھی طرح احساس ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم عوام کے معاملات میں کسی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں؛ اگرچہ وہ ہمارے معاملات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔آپ اگلے روز دریائے ستلج کے حفاظتی بند کے شگاف پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔
نظامِ عدل کا یہ کردار تاریخ کے سیاہ باب
میں لکھا جائے گا: شہبازشریف
سابق وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''نظامِ عدل کا یہ کردار تاریخ کے سیاہ باب میں لکھا جائے گا‘‘ حالانکہ تاریخ کا سیاہ باب پہلے ہی گزشتہ ادوار کے کارناموں سے بھرا پڑا ہے اور اس میں کسی اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے اگر یہ اندراج ہو گیا تو دوسروں کی سخت حق تلفی ہو گی جبکہ اس حوالے سے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ دوسروں کی حق تلفی نہ کی جائے کیونکہ بڑی محنت اور جانفشانی سے اس باب کی آبیاری کی گئی ہے جس پر پانی پھیرنے کی کوئی بھی کوشش سخت ناانصافی ہوگی۔ آپ اگلے روز چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کے فیصلے پر تبصرہ کر رہے تھے۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جا سکتی: وزارتِ خزانہ
وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ ''بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جا سکتی‘‘البتہ اضافہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بہت جلد کیا بھی جائے گا اور یہ بتا دیا گیا ہے کہ دسمبر تک بجلی کی قیمت میں چار روپے سے زائد مزید اضافہ کیا جائے گا، کیونکہ جب تک عوام بجلی خرچ کرنے سے باز نہیں آئیں گے، بجلی کی قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں گے جبکہ بجلی اب صرف افسروں کے لیے ہو کر رہ گئی ہے جو بجلی کے بغیر کام نہیں کر سکتے اور اگر افسر کام نہیں کریں گے تو ملک کیسے چلے گا۔ اگرچہ موجودہ صورتِ حال میں جس طرح سے ملک چل رہا ہے اسے چلنا نہیں کہہ سکتے؛ تاہم عوام کے لیے بجلی صرف ایک عیاشی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ جب بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو عوام زیادہ خوش اور مطمئن تھے‘ لہٰذا اب انہیں ایک بار پھر سے مطمئن اور خوش ہونے کی ضرورت ہے۔ اگلے روز اس سلسلے میں اسلام آباد سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا۔
دنیا میں انسانیت کی خدمت عظیم
ترین مقصد ہے: راجہ پرویز اشرف
سابق وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''دنیا میں انسانیت کی خدمت عظیم ترین مقصد ہے‘‘ اور ہماری جماعت سندھ میں عرصہ دراز سے یہی کچھ کر رہی ہے حتیٰ کہ وہاں اب خدمت ہی خدمت رہ گئی ہے اور انسان اس سے مکمل طور پر بے نیاز ہو چکے ہیں جبکہ انسانیت کے نمائندوں کی حیثیت سے یہ خدمت زیادہ تر اپنوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے اور عوام چونکہ اپنے پائوں پر کھڑے ہیں اس لیے انہیں اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ یعنی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں والے محاورے پر پوری طرح سے عمل درآمد ہو رہا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہو رہی۔ آپ اگلے روز لاہور میں سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین سے ملاقات کر رہے تھے۔
قیدی نمبر 804صادق اور امین
نہیں رہا: فردوس عاشق اعوان
استحکامِ پاکستان پارٹی کی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''قیدی نمبر 804صادق اور امین نہیں رہا‘‘ جبکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر وزیر بننے والے اور پھر اسے خیرباد کہہ دینے والے اب پہلے سے بھی زیادہ صادق اور امین بن چکے ہیں اور دامن پر کوئی داغ بھی نہیں ہے بلکہ اب پہلے سے بھی زیادہ سراونچا کرکے پھر رہے ہیں اور رتبے کی اس بلندی پر جاگے ہوئے ضمیر پوری طرح سے مطمئن ہیں؛ تاہم خطرہ یہ ہے کہ جاگے ہوئے ضمیر کہیں دوبارہ نہ خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگیں کیونکہ یہ دوبارہ بھی سو سکتے ہیں جبکہ ویسے بھی انہیں جاگے ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر اشفاق ناصر کے مجموعہ کلام''آخرِ کار‘‘ سے یہ غزل:
کوہِ مشکِ عشق ہوں‘ گمنام کر دے گی مجھے
ریزہ ریزہ یہ ہوائے شام کر دے گی مجھے
کیا تیقن ہے اگر میں ہجر میں مارا گیا
پھر سے زندہ حسرتِ ناکام کر دے گی مجھے
ڈرتے ڈرتے ایک خوشبو سے ہوا ہوں ہم کلام
یہ گلی کوچوں میں جیسے عام کر دے گی مجھے
اس کو میرا بام پر جلنا پسند آیا اگر
معتبر سارے دیوں میں شام کر دے گی مجھے
اس محبت کی کہانی میں ہزاروں ہجر ہیں
اک جدائی کو تو یہ انعام کر دے گی مجھے
اشک بن کے اس کی آنکھوں سے ٹپکنے کی خلش
ہو نہ ہو اک دن میٔ گلفام کر دے گی مجھے
جب تلک چاروں طرف یہ شام ہے‘ آرام ہے
صبح دم یہ شام بے آرام کر دے گی مجھے
مجھ کو گر بارِ دگر دیکھا کسی کی آنکھ نے
پختہ تر اپنی جگہ ہوں خام کر دے گی مجھے
ابتدا میں ایک صورت سے شناسائی مری
کیا خبر تھی صورتِ انجام کر دے گی مجھے
میں کہ اک لمبی مسافت‘ مختصر ہونے کو ہوں
وہ قدم رکھے گی‘ اور دو گام کر دے گی مجھے
آج کا مطلع
ملا تو منزلِ جاں میں اتارنے نہ دیا
وہ کھو گیا تو کسی نے پکارنے نہ دیا