میرا کردار ڈیڑھ ماہ بعد ختم‘ حکومت کسی
پر بھی پابندی لگا سکتی ہے: نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ''میرا کردار ڈیڑھ ماہ بعد ختم ہو جائے گا‘ حکومت کسی پر بھی پابندی لگا سکتی ہے‘‘ اور نگران حکومت ختم ہونے پر سرکاری طور پر کتنے دنوں کا سوگ ضروری ہے‘ اس کا فیصلہ جلد ہو جائے گا جبکہ کچھ لوگوں نے تو ابھی سے کالا لباس پہننا شروع کردیا ہے جبکہ ایک تجویز یہ بھی آئی ہے کہ کابینہ کے جملہ ارکان کے مجسمے بنا کر انہیں قومی یاد گار کے طور پر محفوظ کر لیا جائے اور جہاں تک کسی جماعت یا امیدوار پر پابندی لگانے کا سوال ہے توحکومت اس پر بھی سنجیدگی سے غورو خوض کر رہی ہے اور عوامی خواہشات اور دبائو کا اندازہ ہوتے ہی الیکشن سے پہلے پہلے کارروائی شروع کر دی جائے گی۔ آپ اگلے روز بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عدلیہ آئین شکن کو ہار پہناتے ہیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''عدلیہ آئین شکن کو ہار پہناتی ہے‘‘ لیکن اس سلسلے میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جبکہ اس ضمن میں سیاستدانوں کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں ہیں لیکن انہیں کسی نے ہار نہیں پہنایا، آمدن سے بڑھ کر اثاثے بنانا ٹریل نہ دے سکنا اس آئین شکنی کی چند مثالیں ہیں لیکن ہار پہنانے کی بجائے انہیں اقتدار اور حکومت سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور وجہ بھی نہیں بتائی جاتی حالانکہ پوچھ پوچھ کر ہلکان ہو چکے مگر آج تک جواب سے محروم رکھا گیا ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ٹکٹ ہولڈروں سے گفتگو کر رہے تھے۔
میں نے تین حلقوں سے الیکشن لڑنے
کا فیصلہ کیا ہے:جہانگیر ترین
استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ ''میں نے تین حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘ تاکہ کامیابی کا امکان زیادہ سے زیادہ رہے اور اگر کسی حلقے میں بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو یہ مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ تینوں حلقوں سے حاصل کردہ ووٹ اکٹھے کرکے کامیاب قرار دیدیا جائے کیونکہ ایک ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے اور اسے ضائع نہیں ہونا چاہئے اور اگر تینوں حلقوں سے اکٹھے کیے گئے ووٹوں سے بھی درکار ووٹ پورے نہ ہوئے تو پھر پارٹی کے دیگر امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹ بھی شامل کرکے شمار کر لیے جائیں جس پر انہیں ہرگز کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز لودھراں سے اپنی انتخابی ٹیم کے ذریعے الیکشن پلان کا اعلان کر رہے تھے۔
عوام کو اپنے مستقبل کیلئے سیاستدانوں کے
بجائے شعور کو ووٹ دینا ہوگا: چودھری شجاعت
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''عوام کو اپنے مستقبل کیلئے سیاست دانوں کے بجائے شعور کو ووٹ دینا ہوگا‘‘ اور اگر کسی نشست پر شعور الیکشن نہ لڑ رہا ہو تو عوام کو وہاں الیکشن کا بائیکاٹ کرنا چاہئے چنانچہ ہم ہر نشست پر شعور کو کھڑا کریں گے جو ہوگا تو سیاستدان ہی لیکن اپنے نام کے ساتھ شعور کا اضافہ کر دے گا اور عوام کو اس سلسلے میں خاصی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس سے شعور اور لا شعور کی تفریق بھی واضح ہو جائے گی جس کا جاننا قوم کے ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی کے سندھ سے صدر طارق حسن اور دیگران سے ملاقات کر رہے تھے۔
سرکاری نہیں‘ عوامی لاڈلا بننا چاہئے: ندیم افضل چن
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ ''سرکاری نہیں‘ عوامی لاڈلابننا چاہئے‘‘ جبکہ سیاسی قائدین بنیادی طور پر عوامی لاڈلے ہوتے ہیں لیکن منتخب ہو کر سرکاری لاڈلے بن جاتے ہیں اور سرکاری وسائل کے ساتھ لاڈ پیار شروع کر دیتے ہیں، اور ان کا عوامی لاڈلا پن ختم ہو جاتا ہے مگر الیکشن سے قبل ایک بار پھر عوامی لاڈلے بن کر سامنے آ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اور کسی کو بھی مستقل طور پر عوامی لاڈلا بننے کا خیال نہیں آتا اور وہ سرکاری لاڈلا بنا رہنا ہی پسند کرتے ہیں جس سے ان کی مالی حالت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے اور عوام انہیں حیرت سے دیکھتے رہتے ہیں اور جمہوریت کی گاڑی اپنی پوری رفتار سے رواں دواں رہتی ہے۔ نیز سیاست اور جمہوریت کا اصل مقصد بھی پورا ہوتا رہتا ہے۔ آپ اگلے روزپیپلزپارٹی کے رہنما نوید چودھری کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اٹک سے عثمان ناظر کی شاعری:
ہجر کا خوف بھی‘ وحشت بھی‘ پشیمانی بھی
تم سمجھتے ہو جسے عشق‘ ہے نادانی بھی
دوستو! ترکِ تعلق کا سبب بنتی ہے
بعض اوقات محبت کی فراوانی بھی
میرے ہمراہ مقید ہے مِرے کمرے میں
در و دیوار سے لپٹی ہوئی ویرانی بھی
ڈر نہیں ہوتا کسی طور بھی لٹ جانے کا
ایک نعمت ہے مجھے بے سروسامانی بھی
٭......٭......٭
اس سے پہلے کہ میں گر جائوں کسی کھائی میں
اپنی آواز ملائی مری بینائی میں
لفظ در لفظ وہ کھلنے کو تھا بے چین مگر
میں کہ الجھا رہا اسلوب کی رعنائی میں
مسکراہٹ تھی لبوں پر تو بدن پر لرزہ
ڈر بھی شامل تھا کہیں حوصلہ افزائی میں
ملنے والا نہیں کچھ گوہرِ مقصود انہیں
جو تفخر لیے بیٹھے ہیں جبیں سائی میں
سر اٹھاتی ہے مرے دل میں یہ خواہش اکثر
تو کبھی آکے مخل ہو مری تنہائی میں
اے بدن اوڑھنے والے مجھے اتنا تو بتا
تو نے جھانکا ہے کبھی روح کی گہرائی میں
ہر تعلق ہے طلائی ترا‘ اور میں نادار
کیسے اپنائوں تجھے زور کی مہنگائی میں
چاہتا ہوں مرا ہر شعر کھلے تجھ دل پر
ورنہ کیا رکھا ہے اس قافیہ پیمائی میں
آج کا مقطع
اس کا ہونا ہی بہت ہے وہ کہیں ہے تو سہی
کیا سروکار اس سے ہے مجھ کو ظفرؔ کیسا ہے وہ