چاہتے ہیں کہ ہم خیال جماعتوں
کو ساتھ لے کر چلیں: آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ ہم خیال جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں‘‘ جبکہ پی ٹی آئی والوں کو بھی ایک سابق وزیر کے ذریعے یہ دعوت دی تھی لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور بعد میں پتا چلا کہ وہ ہمارے ہم خیال ہی نہیں؛ اگرچہ ہم خیال جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا بہت مہنگا پڑتا ہے کیونکہ اس میں سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے حالانکہ وہ محض خلوصِ نیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی تعاون کر سکتی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ خلوص و قناعت خاصے کمیاب ہو کر رہ گئے ہیں اور طمع اور حرص نے ان کی جگہ لے لی ہے جو بجائے خود بہت تشویشناک بات ہے۔ آپ اگلے روز سابق وفاقی وزیر مملکت منیر حسین گیلانی سے ملاقات کر رہے تھے۔
تلخیاں کم کرکے غربت‘ لاقانویت
سے لڑنا ہوگا: سعد رفیق
سابق وفاقی وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ '' تلخیاں کم کرکے غربت اور لاقانونیت سے لڑنا ہوگا‘‘ اور اگر تلخیاں کم کرنی ہیں تو سب سے پہلے سیاست ہی کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ مروجہ سیاست میں تلخیوں کے بغیر کام ہی نہیں چلتا اور حکومت کے اسباب ختم کرکے غربت کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ لگ بھگ سبھی حکومتوں پر کرپشن وغیرہ کے الزامات لگتے رہے ہیں، اس لیے اگر کوئی حکومت آئی تو اسے ختم نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ یہ کام ترقی کے لازمے کے طور پر مجبوری کے عالم میں سرزد ہوتا ہے جبکہ مجبوری سے کسی طور بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا جبکہ لاقانونیت کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ایک روایت اور رواج کی صورت اختیار کر چکی ہے اور روایت اور رواج سے کسی طرح بھی گلو خلاصی نہیں ہو سکتی۔آپ اگلے روز کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میاں صاحب کا اگلا نعرہ ہوگا
مجھے کیوں بلوایا: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''میاں صاحب کا اگلا نعرہ ہوگا مجھے کیوں بلوایا‘‘ کیونکہ اگر انہیں آئندہ حکومت کے لیے بلایا گیا تھا تو اس کے آثار تاحال نظر نہیں آ رہے، اس لیے پارٹی والوں سے یہ سوال پوچھنا مجبوری بن چکا ہے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ 'مجھے کیوں نکالا‘ کی طرح 'مجھے کیوں بلایا‘ کا بھی جواب نہیں ملے گا جبکہ واپس جا کر اس کی تلافی کی جا سکتی ہے، اگرچہ ہم یہی چاہتے ہیں کہ وہ واپس نہ جائیں، یہیں رہیں اور الیکشن لڑ کر سیاسی مخالفین کا مقابلہ کریں ؛ اگرچہ باقیوں کو بھی اس وقت اسی قسم کی صورتحال درپیش ہے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
سی ایم آفس کا خرچہ خود ا
ٹھا رہا ہوں: محسن نقوی
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ ''میں سی ایم آفس کا خرچہ خود اٹھا رہا ہوں‘‘جبکہ یہی صورتِ حال وفاقی کابینہ کی ہے اور ملک کو مفت میں چلا رہے تھے لہٰذا ان خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا اور انتخابات کے مسئلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس طرح ماہانہ کروڑوں اور سالانہ اربوں روپے کی بچت کی جا رہی تھی اور اس طرح سراسر کفرانِ نعمت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ ملک کی بہتری کا خیال کسی کو بھی نہیں ہے اور الیکشن کروا کر مقروض ملک کی مشکلات میں مزید اضافہ اور اضافی خرچہ کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں راوی پل ، تھانہ اسلام پورہ اور لبرٹی پولیس مرکز کا دور کر رہے تھے۔
تبدیلی ایک ٹوپی ڈرامہ تھا: پرویز خٹک
سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے صدر پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''تبدیلی ایک ٹوپی ڈرامہ تھا‘‘ اور ٹوپی بھی میری اپنی تھی لیکن جب معلوم ہوا کہ ٹوپی سے غلط کام لیا جا رہا ہے تو یہ واپس لے لی کیونکہ ابھی اس بہت سے کام لینے تھے، جو اب لینے کا ارادہ ہے اور ہمارے منشور اور انتخابی پروگرام میں بھی اس کا خصوصی کردار ہوگا کیونکہ سیاست میں زیادہ تر کام اسی سے لیے جاتے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کا کردار واضح ہے جس کا عوام کو شدت سے انتظار ہے لیکن چونکہ پہلے یہ ایک بار ناکام ہو چکی ہے اس لیے اس پر ضرورت سے زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں راجوری (مقبوضہ کشمیر) سے عمر فرحت کی شاعری:
قافلہ جب رکا ہوا ہو گا
سارا منظر تھکا ہوا ہو گا
بادلوں پر کہیں‘ بلندی پر
خواب کا گھر بنا ہوا ہو گا
یہ جو ہر سَمت خون پھیلا ہے
خواب میں حادثہ ہوا ہو گا
بادشاہی جسے ملی ہو گی
تیرے در پر جھکا ہوا ہو گا
جانے والا گلی کی نکڑ پر
مڑتے مڑتے رکا ہوا ہو گا
دل میں موجود وہ اگر نہیں ہے
دھڑکنوں میں چھپا ہوا ہو گا
٭......٭......٭
ان لبوں کا یہی تقاضا ہے
میں ہوں پیاسا وہ ایک دریا ہے
جو ہے اس کے طفیل زندہ ہے
اگلی دنیا کو کس نے دیکھا ہے
اس میں کس کا کوئی جھمیلا ہے
میرا ہونا تو میرا ہونا ہے
لوگ کتنے ہی آتے جاتے ہیں
تُو ہی بس میرے دل میں ٹھہرا ہے
اپنی جادوگری دکھاتے ہوئے
چاند پانی پہ چلنے لگتا ہے
جیسے پہلے تھے ہم وہی ہیں عمرؔ
ہم نے کب کوئی رنگ بدلا ہے
آج کا مقطع
ریزہ ریزہ ہی پہچان میں تھا ظفرؔ
جانتے تھے سبھی جا بجا کون تھا