8فروری کو بڑا سرپرائز دیں گے: بلاول بھٹو
سابق وزیرخارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم 8فروری کو بڑا سرپرائز دیں گے‘‘ جو ہماری امیدوں اور اعلانات کے خلاف بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ سرپرائز ہر بار مثبت ہی ہو‘ نیز یہ کوئی خاص سرپرائز نہیں ہوگا کیونکہ جس طرح کی ہوا چلی ہوئی ہے‘ اس سے ایک عام آدمی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے، اس لیے زیادہ تر اسی قسم کے سرپرائز کی توقع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پی ٹی آئی ماضی کی غلطیوں پر توبہ کرے‘‘ کیونکہ اگر اور کوئی یہ کام نہیں کر رہا تو کم از کم انہیں تو کرنا ہی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہوائی باتیں نہیں کررہا‘‘ کیونکہ ہوا جس حد تک خراب ہو چکی ہے‘ ہوائی باتیں کرنے کی کوئی گنجائش بھی باقی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کو بلا واپس دینے کا حکم الیکشن کمیشن پر حملے کے مترادف ہے: شہبازشریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کو بلا واپس دینے کا حکم الیکشن کمیشن پر حملے کے مترادف ہے‘‘ اور الیکشن کمیشن کو پتا ہی نہیں کہ وہ اس حملے میں زخموں سے چور چور ہو چکا ہے جبکہ اسے ہسپتال میں داخل ہونا چاہئے تھا،نیز بلا واپس لینے کے فیصلے سے جو امید کی کرن پیدا ہوئی تھی اس کو بھی پھونک مار کر بجھا دیا گیا ہے جس سے حکومت بنانے کا خواب بھی چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جبکہ قائدِ محترم بھی گم صم سب کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور ایک بار پھر پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کیوں واپس بلایا؟ آپ اگلے روز کراچی میں پارٹی امیدواروں کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
لوگ جوق در جوق ہمارے قافلے
میں شامل ہو رہے: پرویز خٹک
سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے صدر پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''ہماری سوچ سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق ہمارے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں‘‘ چونکہ ہم نے اپنی پارٹی سے سابقہ پارٹی کے نام کو علیحدہ نہیں کیا‘ اس لیے گمان ہے کہ یہ پچھلی پارٹی ہی کے ووٹر ہیں اور ہمارے اس فیصلے کو تحسین کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ہم سے ابھی تک یہی توقع کر رہے ہیں کہ ہم اپنی جماعت سے غداری نہیں کریں گے اوراس کے نام کی لاج رکھیں گے بلکہ ہم خود اپنے آپ کو اس انداز پر داد و تحسین کا مستحق قرار دے رہے ہیں کہ ہم نے پارٹی کے اصل نام کا سابقہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
بلے سے متعلق فیصلہ حدود
سے تجاوز ہے: جہانگیر ترین
استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ ''بلے سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ حدود سے تجاوز ہے‘‘ جس سے سب کی امیدوں اور امنگوں کا خون ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ کم از کم ایک نئی جماعت کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے تھا جبکہ ہم بھی سابق بلے والے ہی ہیں اور ہمیں اس تعلق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بلے کا کا نشان نہ بھی ہو تو عوام بلے کے نشان والوں کو جانتے ہیں۔ اگرچہ کسی ایک کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے سے دوسرے کی حق تلفی ہی ہوا کرتی ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ نئی جماعتیں اتنے صدمات کی متحمل ہو سکتی ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ وہی ہتھیار ہے جو ہمارے خلاف استعمال ہوگا لیکن چونکہ یہ عدالتی فیصلہ ہے اور کیس زیرِ سماعت ہے‘ اس لیے ہم اس پر زیادہ رائے زنی نہیں کر سکتے۔ خدا یہ فیصلہ برداشت کرنے کی استطاعت عطا فرمائے، آمین! آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
کوئی کارکن زخمی ہوا تو ذمہ دار
الیکشن کمیشن ہوگا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''دو صوبے بدامنی کی زد میں ہیں، اس دوران الیکشن میں ہماراکوئی کارکن زخمی یا شہید ہوا تو ذمہ دار الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر ہوں گے‘‘ کیونکہ انتہائی غیر مناسب حالات میں الیکشن کا حکم انہوں نے ہی دیا ہے۔ اگرچہ انتخابات پہلے ہی کافی التوا کا شکار ہو چکے ہیں اور اگر کچھ عرصہ مزید انتظار کر لیا جاتا تو کیا مضائقہ تھا، نیز پنجاب اور کے پی میں نگران حکومتوں کا دورانیہ ایک سال اور وفاق میں صرف چھ ماہ‘ کیا یہ صریح ناانصافی نہیں؟ اس ناانصافی کا ازالہ کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ الیکشن کو مناسب وقت تک ٹال دیا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
رات دن اپنے سے باہر دیکھتا رہتا ہوں میں
کچھ نہیں ہونے کا منظر دیکھتا رہتا ہوں میں
ہے خلا اندر خلا اندر خلا اندر خلا
نظر آتا ہے‘ برابر دیکھتا رہتا ہوں میں
سامنے کی چیز سے کرتا ہوں میں صرفِ نظر
گاہ نیچے، گاہ اوپر دیکھتا رہتا ہوں میں
ایک اندھیرا کاشت کر رکھا ہے میں نے صحن میں
روشنی میں جس کو اکثر دیکھتا رہتا ہوں میں
صبح تو ہوتی ہے لیکن روشنی پڑتی نہیں
اور یہ احوال دن بھر دیکھتا رہتا ہوں میں
کر نہیں سکتا سفید وسیہ میں کچھ امتیاز
پھر بھی کچھ ساروں سے بہتر دیکھتا رہتا ہوں میں
چاند چمکا نہیں کچھ راتوں سے ہی اور صبح تک
بام کے اوپر کبوتر دیکھتا رہتا ہوں میں
ہر طرف اور ہر جگہ سنسان ہے اتنی کہ اب
بار بار اپنے ہی اندر دیکھتا رہتا ہوں میں
لوگ تو ظفرؔ کوچ کر گئے سب یہاں سے ایک دم
سر بسر خالی پڑے گھر دیکھتا رہتا ہوں میں
آج کا مطلع
نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
دلِ برباد کو اس طرح سے آباد رکھا ہے