"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم

ملک میں بھوک مٹاؤ پروگرام لانا چاہتا ہوں: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''میں ملک میں بھوک مٹاؤ پروگرام لانا چاہتا ہوں‘‘ کیونکہ بھوک ہی سارے فساد کی جڑ ہے اور جب یہ لگتی ہے تو کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے اور اگر کھانے کو کچھ نہ ملے تو آدمی کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے‘ اس لیے کوئی ایسا پروگرام لایا جانا چاہیے کہ جس کے ذریعے نہ کسی کو بھوک لگے اور نہ اس سے مسائل پیدا ہوں اور ہر وقت آدمی کا پیٹ بھرا رہے اور جس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہوا کے ذریعے ہی پیٹ کو اس قدر بھر لیا جائے کہ اس میں کچھ اور ڈالنے کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔آپ اگلے روز لاہور میں پیپلز پارٹی خواتین وِنگ کی جانب سے منعقدہ ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سینیٹ چوری شدہ ہاؤس‘ لوگ پیسے
دے کر آ جاتے ہیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''سینیٹ چوری شدہ ہائوس ہے‘ جس میں لوگ پیسے دے کر آ جاتے ہیں‘‘ اور اس چوری پر نہ کوئی پکڑا جاتا ہے اور نہ پیسے دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے اور نہ چوری شدہ ہاؤس کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے اور پیسے دینے والوں اور سینیٹ‘ دونوں کی گاڑی پوری رفتار سے چلتی رہتی ہیں۔ نہ کسی کے کان پر کوئی جوں رینگتی ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ حرکت میں آتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ چوری کو ایک باقاعدہ پیشہ قرار دے کر جائز قرار دے دیا جائے جس سے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ہماری حکومت آئی تو خطے کی تقدیر
بدل دیں گے: آصف زرداری
سابق صدرِ مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہماری حکومت آئی تو خطے کی تقدیر بدل دیں گے‘‘ جبکہ اصل خطہ تو خود سیاستدان ہیں جن کی اپنی تقدیر بدلنے کے ساتھ ہی خطے کی تقدیر خود بخود بدل جاتی ہے اور کئی بار پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے جس کی کوئی مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے شواہد مختلف جگہوں پر موجود ہیں اور سب کو نظر بھی آ رہے ہیں جس پر یہ خطہ ہمیشہ سیاستدانوں کا شکر گزار رہے گا جبکہ ایک روشن مثال کے طور پر لاڑکانہ کی بدلتی ہوئی تقدیر پیش کی جا سکتی ہے‘ جس پر کبھی کسی نے غرور بھی نہیں کیا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
کسی عدالت نے نگران حکومت کو
غیر آئینی قرار نہیں دیا: وزیر اطلاعات
نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ''کسی عدالت نے نگران حکومت کو غیر آئینی قرار نہیں دیا‘‘ کیونکہ ہر طرف خیر سے افراتفری کا عالم تھا اور کسی کو اس چیز کا خیال ہی نہ آیا ورنہ صرف نگرانی کیلئے آنے والوں نے ہر وہ کام کیا جو نگرانی کے علاوہ تھا جس سے تبادلوں اور نامکمل منصوبوں سمیت نگرانی کا کام ضرور متاثر ہوا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ عوام خود ہی ایک دوسرے کی نگرانی کر رہے تھے جس کے بعد ہماری نگرانی کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی سے بلّا واپس لینے
کے حامی نہیں: قادر خاں مندوخیل
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر خان مندوخیل نے کہا ہے کہ ''ہم پی ٹی آئی سے بلّا واپس لینے کے حامی نہیں ہیں‘‘ کیونکہ پہلے ہی اتنا کچھ ہو چکا ہے کہ اب اس سے بلّے کا انتخابی نشان واپس لینا مرے کو مارے شاہ مدارکے مترادف ہوگا لہٰذا کسی کو ان حالات میں شاہ مدار بننے کی چنداں ضرورت نہیں ہے‘ نیز بلّے کے نشان کے بغیر بھی اس کا ووٹ بینک نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ اس میں اضافہ ہو گا‘ اس لیے اس سے بلا واپس لینا بے سود ہو گا جس کا نتیجہ ماسوائے پشیمانی کے اور کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹی وی پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی شاعری:
آگے بڑھنے والے
بدن کو کپڑوں پر اوڑھتے اور چھریاں تیز کر کے نکلتے ہیں
بھِیڑ کو چیر کر راستہ بناتے
ناخنوں سے نوچ لیتے ہیں‘لباس اور عزتیں
سرخ مرچوں سے ہر آنکھ کو اندھا کر دیتے ہیں
اور بڑھ جاتے ہیں‘رعونت بھری مسکراہٹ کے ساتھ
چیختے اور چپ کرا دیتے ہیں‘سرِ عام رقص کرتے ہیں
اور گاڑیاں ٹکرا جاتی ہیں‘لڑکے لڑ پڑتے
مرد‘ پتلونیں کس لیتے‘اور بوڑھے‘ تمباکو میں
گُڑ کی مقدار بڑھا دیتے ہیں
کوئی میز ان کے سامنے جما نہیں رہ سکتا
اور کوئی محفل‘ان کا داخلہ روک نہیں سکتی
ان کے دبدبے سے‘دیواروں کے پلستر اکھڑ جاتا ہے
کاغذ‘ شور کرنا بھول جاتے ہیں
اور موسم ارادہ تبدیل کر لیتے ہیں
آگے بڑھنے والوں سے پناہ مانگتے ہیں
ان کے ساتھ‘ڈرتے ہیں‘زمین پر جھک کر چلنے والے
بوجھل خاموشی سے انہیں دیکھتے اور گزر جاتے ہیں
آگے بڑھنے والے نہیں جانتے
کہ آگے بڑھا جا ہی نہیں سکتا
پھر بھی وہ بڑھتے ہیں‘پہنچ کر دم لیتے ہیں
بے حیائی کی شدت‘آنکھوں میں
موتیا اُترنے کی رفتار تیز کر دیتی ہے
ہر تنے کی چھال
بدن پر اَن مٹ خراشیں چھوڑ جاتی ہے
پھٹکری اور ویزلین سے چکنایا ہوا ماس
ہڈیوں سے ہمیشہ جڑا نہیں رہ سکتا
ہر بدن اور ہر کرسی کی‘ایک عمر ہوا کرتی ہے
اور پھر ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں‘ایک دن
لپٹے ہوئے لباس میں‘خلا کو گھورتے ہوئے
کسی نیم تاریک نشیب میں ‘پر کٹے پرندے کی طرح
مٹی پر لوٹتے ہوئے‘آگے بڑھنے کی پیہم کوشش میں
آج کا مطلع
نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے
یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں