"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور یاسمین سحر کی غزل

سلیکشن کا شور تشویشناک‘ عوام کو
فیصلہ کرنا ہوگا: چودھری شجاعت
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''سلیکشن کا شور تشویشناک‘ عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا‘‘ اگرچہ سلیکشن میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور یہ سب کچھ اوپر‘ اوپر ہی کر لیا جاتا ہے اور عوام دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں‘ اس لیے عوام کو کچھ کرنے کی ترغیب دینا بجائے خود بہت بڑی دیدہ دلیری ہے؛ تاہم عوام یہ تو فیصلہ کر ہی سکتے ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ نہ کریں اور اسے ایک روٹین کی کارروائی سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیں، اس لیے اس بیان کو محض رسمی کارروائی سمجھا جائے اور اس سے ہرگز وہ مراد نہیں ہے جو کہا گیا ہے۔ آپ اگلے روز مسلم لیگ (ق) سندھ کے سیکرٹری اطلاعات سے ملاقات کر رہے تھے۔
(ن) لیگ کہتی ہے ملک میں پیسہ نہیں‘
میں کہتا ہوں کہ پیسہ تھا‘ چوری کر لیا: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ کہتی ہے کہ ملک میں پیسہ نہیں‘ میں کہتا ہوں کہ ملک میں پیسہ تھا‘ آپ نے چوری کر لیا‘‘ اگرچہ اس میں اور بھی کئی حضرات کا نام لیا جاتا ہے کیونکہ یہ چیز ہی ایسی ہے کہ خواہ مخواہ انسان اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے؛ البتہ سب کے طریقے اپنے اپنے ہوتے ہیں کیونکہ یہ سارا ہنرمندی کا معاملہ ہے اور ہر کوئی اپنے ہنر کے مطابق کام کرتا ہے جبکہ اصل ہنر اس پیسے کو ہضم کرنا ہے اور یہ بھی اپنے اپنے ہاضمے پر منحصر ہوتا ہے جبکہ پیسہ بذاتِ خود کئی اور چیزوں کو ہضم کرنے کے لیے پھکی کے طور پر بھی کام آتا ہے۔ آپ اگلے روز نصیر آباد تاخیر پور جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔
8فروری بہت اہم دن‘ یہ اور
طرح کا الیکشن ہے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''8فروری بہت اہم دن‘ یہ اور طرح کا الیکشن ہے‘‘ اور پہلے کبھی اس طرح کا الیکشن نہیں لڑا، کیونکہ کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ الیکشن صاف و شفاف ہوگا اور جو ایک خوش خیالی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی الیکشن صاف وشفاف کیسے ہو سکتا ہے اس لیے یہ نئی طرح کا الیکشن کسی کے وارے میں نہیں ہے۔ صاف و شفاف الیکشن کی شرائط یہ ہیں کہ اسے سب سے پہلے صابن یا کسی اچھے ڈیٹرجنٹ سے مل مل کر اچھی طرح دھویا جائے اور جو اتنا شفاف ہو کہ آر پار نظر بھی آتا رہے کہ کیا ہو رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ جمہوریت کے خلاف کوئی سوچی سمجھی سازش ہے۔آپ اگلے روز اپنے انتخابی حلقہ میں ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔
واحد سیاستدان ہوں جس نے کوئی
پریس کانفرنس نہیں کی: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''میں واحد سیاستدان ہوں جس نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی‘‘ کیونکہ چلہ کشی کے دوران ہی یہ بات طے ہو گئی تھی کہ میں پریس کانفرنس نہیں کروں گا اور جب دوسری ساری باتوں پر بھی اتفاق ہو چکا تھا تو پریس کانفرنس کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب مزے سے آم کھائیں‘ پیڑ گننے کی کیا ضرورت ہے؛ تاہم وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور میرے مقابلے میں امیدوار کھڑا کر کے حمایت کرنے سے انکار کر دیا گیا ہے اور لگتا ہے کہ چلہ کشی گلے پڑ گئی ہے اور اب سوچتا ہوں کہ اس سے تو بہتر تھا کہ پریس کانفرنس ہی کر لی جاتی۔آپ اگلے روز راشد شفیق کے ہمراہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر رہے تھے۔
تحریک انصاف اپنے ہی کھودے
ہوئے گڑھے میں جا گری:رانا ثناء اللہ
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں جا گری ہے‘‘ اور وہ اس گڑھے میں سے بھی پریشان اور خوف زدہ کر رہی ہے اور اب بھی سینیٹ کی منظور شدہ قرارداد کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کچھ عرصے کیلئے ملتوی ہی ہو جائیں تو اچھا ہے؛ اگرچہ یہ بھی خدشہ ہے کہ ایک بار ملتوی ہوئے تو یہ لمبے ہی ملتوی ہو جائیں گے کیونکہ حالات خراب ہونے پر ایک طویل عرصے کیلئے جمہوریت کی چھٹی بھی ہو سکتی ہے جبکہ ویسے بھی جمہوریت نے اپنی عمومی میعاد پوری کر لی ہے‘ اس لیے تاریخ بھی خود کو دہرا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یاسمین سحر کی غزل:
سر کی دستار گرانے کے لیے کافی ہیں
تیری باتیں ہی رلانے کے لیے کافی ہیں
حرف دو چار تسلی کے مجھے وہ کہہ دے
چھوڑ کر شہر کو جانے کے لیے کافی ہیں
زندگی ہاتھ میں پتھر لیے نکلی ہوئی ہے
راستے ٹھوکریں کھانے کے لیے کافی ہیں
تیری تصویریں پرانی پڑی ہیں میرے پاس
جو تری یاد دلانے کے لیے کافی ہیں
چار چھ لوگ جو بیٹھے ہیں سرہانے میرے
میری میت کو اٹھانے کے لیے کافی ہیں
زندگی کون سنے گا تری روداد یہاں
ایک دو باتیں زمانے کے لیے کافی ہیں
روٹھنے والے کی آنکھوں کی چمک کہتی ہے
ایک دو پھول منا نے کے لیے کافی ہیں
ہاتھ میں کس لیے دیوان اٹھایا ہوا ہے
ایک دو غزلیں سنانے کے لیے کافی ہیں
خود کو تم فکر سے آزاد کرو میرے پاس
حوصلے درد چھپانے کے لیے کافی ہیں
ہو گا اک آدھ کوئی راہ دکھانے والا
لوگ رستے سے ہٹانے کے لیے کافی ہیں
رنگ بھرنا ہے حقیقت کا اگر تم نے سحرؔ
چار کردار فسانے کے لیے کافی ہیں
تم بھی مرنے کی سحرؔ کر لو کوئی تیاری
لوگ اب شور مچانے کے لیے کافی ہیں
آج کا مقطع
چھوڑی ہے جب سے ہم نے ظفرؔ عاجزی کی خو
اتنا مزاج اس کا بھی برہم نہیں رہا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں