8فروری قومی نصب العین کی
تیاری کا دن ہے: شہبازشریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''8فروری قومی نصب العین کی تیاری کا دن ہے‘‘ جبکہ قومی نصب العین کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے، اس وقت صرف اس کی تیاری کی ضرورت ہے؛ اگرچہ اس کی تیاری بھی ایک رسمی سی بات ہے کیونکہ اقتدار ملتے ہی وہ از خود تیار ہو کر کام شروع کر دیتا ہے اور ہر طرف وارے نیارے ہونے لگتے ہیں جبکہ تیاری صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں کوئی خلل نہ پڑے جبکہ خلل پڑنا بذاتِ خود ایک موہوم اندیشہ ہے کیونکہ ایک خود کار نظام میں ویسے بھی کوئی خلل نہیں پڑ سکتا اور صرف اس کیلئے تیار ہونے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اقتدار ملنا اس کی تیاری کی نشانی ہے۔ آپ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
(ن) لیگ سیاسی مخالفین کو پچ پر سے
ہی آئوٹ کرنا چاہتی ہے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ سیاسی مخالفین کو پچ پر سے ہی آئوٹ کرنا چاہتی ہے‘‘ جس کا آغاز تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے محروم سے ہو گیا ہے جس کا تھوڑا بہت فائدہ باقیوں کو بھی پہنچے گا، مگر پنجاب میں ہمارے امیدواروں کو بھی پارٹی کے انتخابی نشان سے محروم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سازشیں ناکام کر کے ہم وفاق میں حکومت بنائیں گے‘‘ اگرچہ یہ بھی اسی طرح ساتھ ساتھ چل رہی ہیں اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وفاق میں ہماری حکومت نہ بننے دی جائے حالانکہ اصولی طور پر باری ہماری ہے اور (ن) لیگ اپنی باری لے چکی ہے‘ اس لیے اسے اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے لیکن وہ طمع کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز قمبر شہداد کوٹ میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
لیول پلینگ کیلئے آئے‘ ہم سے
فیلڈ ہی چھین لی: تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ''لیول پلینگ کیلئے آئے‘ ہم سے فیلڈ ہی چھین لی گئی‘‘ اور ہمیں اپنے انتخابی نشان سے ہی محروم کر دیا گیا لیکن یاد رہے کہ لوگوں نے ووٹ پارٹی کو دینا ہے‘ انتخابی نشان کو نہیں اور یہ ہم سے مخصوص نشستیں چھیننے کی سازش ہے لیکن ہم مخصوص نشستوں کے بغیر بھی پانسہ پلٹ کر دکھا سکتے ہیں جبکہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی بھی تمام سازشیں ناکام ہو گئی ہیں اور اب الیکشن کے میدانِ خارزار میں سے گزرنا ہی پڑے گا، اب دیکھنا یہی ہے کہ کون اس دریا میں ڈوبتا ہے اورکون بچ نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے؛ اگرچہ ہم بھی ان کے ساتھ ہی ہوں گے اور ایسا نہ ہو کہ :
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
اگلے روز تحریک انصاف کے وکیل لطیف کھوسہ عدالتِ عظمیٰ میں گفتگو کر رہے تھے۔
ہر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی الیکشن
کرانے کی پابند ہے: مرتضیٰ سولنگی
نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ''ہر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہے‘‘ اور پی ٹی آئی کو اسی غفلت کی سزا ملی ہے؛ اگرچہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی وغیرہ کے انٹرا پارٹی الیکشن بھی اسی طرز پر ہوئے تھے لیکن شاید وقت کی کمی کی وجہ سے ان کا نوٹس نہیں لیا جا سکا جبکہ ممکن ہے کہ ان کا خیال ہوکہ ایک پارٹی کے خلاف ایکشن لینے سے دوسری پارٹیوں کو بھی کان ہو جائیں گے اور وہ جماعتیں اگلی بار الیکشن ٹھیک طریقے سے کرانے کا سوچ رہی ہوں گی کیونکہ اگر اصلاح مقصود ہو تو کسی ایک کو ہی نشانِ عبرت بنا کر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے اور تقاضائے انصاف بھی یہی ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
بے قصوروں کا احتساب کرنے والے
جوتے چھوڑ کر بھاگ رہے: مریم نواز
مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''بے قصوروں کا احتساب کرنے والے جوتے چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں‘‘ اور پہن کر بھی دیکھے مگر یہ جوتے کسی کام کے نہیں، کسی کو چھوٹے ہیں تو کسی کو بڑے، اور جس کا مطلب ہے کہ ان کی بھاگنے کی کوئی تیاری نہیں تھی جبکہ ضروری تھا کہ اس کے لیے پہلے جوگرز خرید لیے جاتے جبکہ دوراندیشی کا تقاضا بھی یہی تھا، نیز جلسے میں حاضرین کی کم تعداد دیکھ کر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے کیونکہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ قائدِ محترم عوام کے دلوں میں بستے ہیں‘ لوگ جلسے میں آئیں یا گھر وں میں بیٹھے رہیں‘ ایک ہی بات ہے۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں سیالکوٹ سے زبیر خیالی کی شاعری:
ہراس ظلمتِ شب کا بکھرنے والا ہے
فلک کے ماتھے پہ سورج ابھرنے والا ہے
جو حرفِ راز زباں سے نکل گیا اپنی
کہاں وہ ایک بشر تک ٹھہرنے والا ہے
براجمان تھا مدت سے تختِ دل پر جو
وہ شخص اب مرے دل سے اترنے والا ہے
پرانے گھر کی کچھ اینٹیں نکال کر مفلس
نئے مکان کی تعمیر کرنے والا ہے
مری نگہ ہے درِ اہلِ درد پر مرکوز
مری حیات کا چہرہ سنورنے والا ہے
حصار باندھ رکھا ہے حسد نے اس کے گرد
وہ اپنی آگ میں خود جل کے مرنے والا ہے
٭......٭......٭
یہ لوگ کسی سے بھی رعایت نہیں کرتے
بے لوث خدا سے بھی محبت نہیں کرتے
کیوں ہم سے ہراساں ہو‘ تسلط ہے تمہارا
کردار مصنف سے بغاوت نہیں کرتے
جو دیکھنا چاہیں ہمیں دنیا کی نظر سے
پھر ہم بھی عطا ان کو بصارت نہیں کرتے
نادان نکل آئے ہیں تاریکیٔ شب سے
اب چاند ستاروں کی عبادت نہیں کرتے
لے آئیں کوئی ڈھونڈ کے انسان کا ہمسر
ہم اہلِ جنوں ایسی حماقت نہیں کرتے
میں ہاں میں ملاتا نہیں ہاں ان کی خیالیؔ
احباب بھی اب میری وکالت نہیں کرتے
آج کا مطلع
مسترد ہو گیا جب تیرا قبولا ہوا میں
یاد کیا آؤں گا اس طرح سے بھولا ہوا میں