بسنت، پولیس، کارکردگی اور کارروائی

موسمِ بہار کے آغاز میں بسنت ‘پاکستان اوربھارتی پنجاب کاایک مشہور تہوار تھا‘جس کی روح پتنگ بازی سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں لاہور اورقصور ‘جبکہ انڈیا میں امرتسر کے شہروں میں اس تہوار کا خاص اہتمام کیاجاتاتھا۔دوسرے شہروں سے دوستوں اورعزیزوں کو بسنت کے موقع پرخصوصی طورپر مدعو کیاجاتا ‘ مہمانوں کیلئے گھروں کو پیلے رنگ اورپھولوں سے سجایاجاتا اور میٹھے پکوان تیارکئے جاتے تھے ‘پھر یہ تہوار آہستہ آہستہ راولپنڈی‘ گوجرانوالہ‘ ملتان‘ فیصل آباد‘ سیالکوٹ سمیت ملک بھر کے مختلف شہروں تک پھیل گیا ۔ فروری سے مارچ مختلف شہروں میں مختلف تاریخیں مقرر کرکے بسنت کااہتمام ہونے لگا۔ اس تہوار کی مقبولیت دیکھ کر اسے سرکاری سطح پربھی سرپرستی  ملنے  لگی۔ 2007ء تک فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں اتوار کو بسنت منائی جاتی۔بھارت میں بسنت ہندوئوں کے روایتی کیلنڈر میں پنچمی کے نام سے باقاعدہ تہوار کے طورپر شامل ہے۔2007ء کے بعد جوں جوں بسنت کی مقبولیت میں اضافہ اور اس کے شائقین کی تعداد بڑھنے لگی تو یہ تہوار خونیں کھیل میں بدل گیا۔ پتنگ بازی شوق سے مقابلے اور پھر جوئے میں تبدیل ہونے لگی۔ کائٹ فلائنگ کلب اور پتنگ فروش یونینوں کاقیام عمل میں آگیا۔ ڈھول کی تھاپ کی جگہ پہلے پٹاخوں اورپھر ہوائی فائرنگ ہونے لگی‘ عام دھاگے کی جگہ دھاتی اور کیمیکل ڈور کااستعمال شروع ہوگیا۔ دھات اور کیمیکل والی ڈور سے شہریوں کی گردنیں کٹنے لگیں‘ دھاتی ڈور بجلی کے تاروں سے ٹکرانے سے ٹرانسفارمرز جلنے اور شہر تاریکی میں ڈوبنے لگے‘ چھت کنارے کھڑے پتنگ باز بجلی کے تاروں سے ٹکرانے کے جان لیواواقعات رونما ہونا شروع ہوگئے‘کٹی پتنگ پکڑنے کے شوقین بچے چھتوں سے گرنے کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے لگا اور قیمتی انسانی جانیں اس کی بھینٹ چڑھنے لگیں تو عوامی‘ مذہبی اور سماجی حلقوں کی جانب سے بسنت پر تنقید ہونے لگی ۔ معصوم قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود اربابِ اختیار کی جانب سے اس خونیں کھیل کو روکنے کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایاگیا ‘تو مجبوراََ عدالت کو بسنت پرپابندی عائد کرناپڑی‘ پھر پنجاب حکومت کوبھی خیال آیا اور اس تہوار پر نا صرف پابندی لگادی گئی ‘بلکہ پولیس کو بھرپور کارروائی کاحکم دیاگیا۔ 
گزشتہ برسوں کے دوران بااثر پتنگ ساز مافیا نے بسنت پر عائد پابندی کو دھاتی ڈور سے ہوا میں ہمیشہ اڑایا‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر اس تہوار کو کبھی جشن ِ بہاراں اور کبھی کسی دوسری شکل میں منانے کی کوششیں بھی جاری رہیں‘ سال بھر عموماً اور موسم بہار میں خصوصاً راولپنڈی اورلاہور سمیت مختلف شہروں میں آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھراہوتاہے ۔ جمعہ ‘ ہفتہ اوراتوار تو ہرطرف پتنگیں اڑتی نظر آتی ہیں‘ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اڑنے والی پتنگیں کسی جگہ تیار بھی کی جاتی ہیں اور پھر بازار میں فروخت بھی ہورہی ہیں‘ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی‘ تخریب کاری اورڈکیتی کے منصوبوں کوناکام بنانے اور روزانہ منشیات کی دیسی فیکٹریاں پکڑنے والی پولیس آج تک اتنے بڑے پیمانے پر کاروبار کرنے والے پتنگ سازوں اور پتنگ فروشوں کو کیوں نہ پکڑ سکی‘ پولیس آج تک اس بات کاسراغ کیوں نہ لگاسکی کہ آخر کس جگہ لاکھوں پتنگیں تیار کی جارہی ہیں؟ جان لیوا دھاتی ڈور کون اور کہاں بنا رہاہے؟ ڈور پر خطرناک کیمیکل کہاں لگایاجارہاہے؟ ہمارے ادارے دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرنے والی گاڑیاں تو روزانہ پکڑرہے ہیں ‘جو اچھی بات ہے‘ لیکن انہیں لاکھوں کی تعداد میں پتنگیں اور ہزاروں کی تعداد میں خطرناک ڈور کے بنڈل ایک شہر سے دوسرے شہر اور مختلف علاقوں میں لے جانے والی گاڑیاں آج تک نظر نہیں آئیں اور نہ ہی ابھی تک ہمارے اس بات کاسراغ لگایا جاسکاکہ کن خفیہ راستوں سے پتنگ اورڈور کی منتقلی کی جاتی ہے؟ 
تصویر کا ایک رُخ دیکھیں تو ہر طرف آسمان پر رنگ برنگی پتنگیں اڑتی نظر آتی ہیں‘ جنہیں دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ شاید مکمل اہتمام اور دھوم دھام سے بسنت منائی جارہی ہے‘ لیکن دوسری طرف پولیس کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو تھانے ملزمان سے بھرے ہوتے ہیں‘ سینکڑوں پتنگیں اورڈور کے بنڈل ضبط کرکے درجنوں مقدمات کااندراج کر کے سوشل میڈیا سمیت اس کی بھرپور تشہیر کی جاتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اب کسی کو پتنگ بنانے‘ بیچنے یا اڑانے کی جرأت نہیں ہوگی‘ لیکن اگر اردگرد کے ماحول پر نظردوڑائی جائے‘ تو بڑے خوفناک حقائق سامنے آتے ہیں۔ پولیس صرف سڑک کنارے کَٹی پتنگ لوٹنے کیلئے بھاگتے خالی ہاتھ‘ خالی جیب اورخالی پیٹ غریب بچوں کو پکڑ پکڑ تھانوں میں بند کر کے مقدمات درج کر رہی ہے۔ پیدل‘ سائیکل یا موٹرسائیکل پر چند پتنگیں یا ڈور کے بنڈل لے جانے والوں کو گرفتار کرکے پتنگ فروشوں کیخلاف بھرپور کریک ڈائون ظاہر کرتی ہے اور انہیں میڈیا کے سامنے پیش کرکے اپنی شاندار کارکردگی کااظہار کیاجاتاہے‘ لیکن اس اتنی اعلیٰ کارکردگی کے باوجود پتنگ بازی کاخاتمہ نہ ہوسکا۔ گزشتہ روزراولپنڈی شہر کی خبر ہی پڑھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا ''راولپنڈی میں جمعہ کے روز بسنت کے دوران اندھا دھند ہوائی فائرنگ سے 2سالہ بچی اور2خواتین اندھی گولی کی زد میں آکر شدید زخمی ہو گئیں ‘جبکہ آتش بازی ‘ ہلڑ بازی اور پتنگیں لوٹنے کے دوران متعدد بچے اور نوجوان زخمی ہو گئے‘‘بسنت اور پتنگ بازی کے باعث تمام دن چھتوں پر طوفان بدتمیزی برپا رہا اونچی آواز میں ریکارڈنگ اور گانوں کی آوازوں سے کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ‘جبکہ پولیس اور پتنگ بازوں کے درمیان تمام دن آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا‘پولیس گاڑیوں پر سپیکر لگا کر بسنت سے باز رہنے کے اعلانات کرنے کے ساتھ سڑکوں پر ناکے لگا کر موٹر سائیکل سواروں کے کاغذات چیک کرتی رہی‘ ادھر پولیس نے پتنگ فروشوں کے خلاف کارروائی میں300سے زائد افراد گرفتار کر کے ہزاروں پتنگیں‘ سینکڑوں  ڈوریں ‘ اسلحہ اور منشیات برآمدکرلی ‘تاہم گزشتہ روزہونے والی پتنگ بازی اور ہوائی فائرنگ نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور مجموعی طور پر پولیس پتنگ بازوں اور پتنگ فروشوں کے سامنے مکمل طور پر بے بس نظر آئی اطلاعات کے مطابق تھانہ رتہ امرال کے علاقے میں گھر کے صحن میں موجودرخسانہ بی بی پیشانی پر اندھی گولی لگنے سے‘ تھانہ بنی کے علاقے میں25سالہ رمشا اورتھانہ وارث خان کے علاقے سر سید چوک میں2سالہ عائشہ شدید زخمی ہو گئی‘ جنہیں فوری طور پر قریبی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا‘ اسی طرح پتنگیں لوٹنے کیلئے چھتیں پھلانگنے اور سڑکوں پر بھاگنے کے دوران گر کر زخمی ہونے والے متعدد نوجوانوں اور بچوں کو ان کے والدین اور لواحقین پولیس کے خوف سے پرائیویٹ ہسپتالوں میں لے کر جاتے رہے۔مختلف علاقے گولیوں اور پٹاخوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجتے رہے‘پولیس اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کیلئے مری روڈ پر مختلف مقامات پر ناکے لگا کر موٹر سائیکلوں سواروں کے کاغذات چیک کرتی رہی ‘ادھر پولیس نے پتنگ فروشوں کے خلاف کارروائی میں6ہزارسے زائد پتنگیں‘ 45ڈوریں‘ اسلحہ ‘ منشیات اور شراب برآمدکر لی۔ پولیس کے ترجمان کے مطابق ‘ راول ڈویژن سے260افراد کو حراست میں لیا گیا‘ جبکہ پوٹھوہار ڈویژن سے 60افراد کو حراست میں لے لیا ‘لیکن واضح رہے کہ پکڑی گئی پتنگوں اور ڈور کو تلف نہیں کیاگیا ۔
سوشل میڈیا پرراولپنڈی کائٹ کلب کی جانب سے ''بسنت فیسٹیول 2020ء ‘‘ اور'' جشن ِبہاراں ‘‘ کے نام سے 13اور 14فروری کو کینٹ ایریا ‘جبکہ 20اور 21فروری کو سٹی ایریا میں بسنت منانے کے اعلانات اور تشہیر کے باوجود اس خونیں کھیل کے منتظمین کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ پولیس اہلکاروں کی بسنت منانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پروائرل ہونے کے باوجود کسی تھانے میں پیٹی بھائیوں کے خلاف ایف آئی آر کااندراج نہ ہوا۔ ہوائی فائرنگ سے معصوم انسانی جانیں لینے والوں کے خلاف کسی نے کوئی ٹھوس کارروائی نہ کی اور صرف پتنگ لوٹنے والے غریب بچوں کوگرفتار کرکے کارکردگی دکھائی جاتی رہی۔ وزیراعظم عمران خان‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار‘ آئی جی پنجاب اوردیگر سینئرپولیس حکام کو اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرناہوگا اور جب تک پتنگ سازی و پتنگ فروشی کاسدباب نہیں ہوتا ‘یہ خونیں کھیل جاری رہے گا۔لوگوں کی گردنیں کٹتی رہیں گی، بچے چھتوں سے گرتے رہیں گے اور بہاریں خون میں نہلائی جاتی رہیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں