کورونا کامرض چین کے شہردوہان سے شروع ہوا‘ لیکن حکومت چین کے انتہائی مؤثر اقدامات کی بدولت اب وہاں تو وائرس کنٹرول ہوتاہوا نظر آرہاہے‘ لیکن وطن عزیز پاکستان سمیت دنیا کے 135ممالک میں انسانی زندگی کیلئے خطرے اورخوف کی علامت بن چکا۔ دنیا بھر میںکورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد اور اس وبا سے ہونے والی اموات کی تعدادپانچ ہزار سے تجاوز کرچکی ‘ اب تک سترہزار سے زائدلوگ صحت یاب ہوچکے ہیں ‘جو اس خوفناک مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کیلئے امید افزاء ہے کہ صبر اورحوصلے کے ساتھ اس وائرس پر قابو پایا جاسکتاہے‘ لیکن اس کیلئے افواہوں پر کان دھرنے اور سوشل میڈیا پرچلنے والے غلط ٹوٹکوں کی بجائے سنجیدگی کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اس وقت تک اٹھائیس سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے اور آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھ رہی ہے‘ جس پر وفاقی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ہیلتھ ایمرجنسی پر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر کورونا وائرس پھیلنے کے خطرے کومدنظر رکھتے ہوئے ملک بھر کے تعلیمی ادارے5 اپریل تک بند کردئیے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیاگیاکہ تمام مدارس بھی بندرہیں گے‘تمام نجی و سرکاری سکول‘ کالجز اورجامعات بھی بند رہیں گی۔حکومت 27 مارچ کو ملک میں صورتحال کا جائزہ لے کر تعلیمی ادارے کھولنے یا بند رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔ رائیونڈ اجتماع کو مختصر کر دیا گیا ‘ بین الاقوامی پروازیں صرف اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کے ایئرپورٹس سے چلیں گی۔پاکستان میں سب سے زیادہ کورونا وائرس ایران سے آنیوالے افراد میں پایاگیا‘ جس کے بعد حفاظتی اقدامات کے طورپر حکومت نے افغانستان اور ایران کے ساتھ ملنے والی مغربی سرحدوں کو بھی دو ہفتے کیلئے بند کردیا گیاہے ۔کراچی کے بعد لاہور میں بھی ہونے والے پاکستان سپرلیگ کے کرکٹ میچوں میں شائقین کے سٹیڈیم میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور اب شائقین کرکٹ اپنے پسندیدہ ستاروں کو صرف ٹیلی ویژن پر ہی دیکھ سکیں گے‘ پی ایس ایل میں شامل اکثرغیرملکی کرکٹرز وطن واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ مختلف شہروں میں جشن بہاراں کی تقریبات اورمیلے بھی منسوخ کردئیے گئے ہیں ‘جبکہ یوم پاکستان کی تقریب اور 23مارچ کو ہونے والی مسلح افواج کی پریڈ بھی منسوخ کردی گئی۔جیلوں میں قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والے رشتہ داروں کومحتاط رہنے کے ساتھ عوام کوہدایت کی گئی کہ عوامی مقامات‘عدالتوں اور میلوں میں اکٹھا ہونے سے بچا جائے۔ملک میںشادی ہالزمیں تقریبات‘ سینما گھروں اور بڑے عوامی اجتماعات پرپابندی لگادی گئی ہے‘کورونا وائرس وباء کی مانیٹرنگ کیلئے وزارت صحت میں نیشنل کمیونی کیشن سنٹر قائم کردیاگیاہے۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات میںبلاشبہ سنجیدگی دکھائی دیتی ہے‘ لیکن کسی بھی قومی مہم کی کامیابی کادارومدار عوامی تعاون اورعمل درآمد پر منحصر ہوتاہے اوراس موذی عالمی وباء پرقابو پانے کیلئے ہمیں بھی ہمسایہ دوست ملک چین جیسی سنجیدگی اورقومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرناہوگا۔ حکومت نے تمام ضروری اقدامات کردئیے ہیں‘ جن میں دیگر اقدامات کی اہمیت اپنی جگہ ‘لیکن سب سے اہم مسئلہ تعلیمی اداروں کی بندش ہے ‘کیونکہ آج کل سالانہ امتحانات کاموسم ہے اور میٹرک کے امتحانات شروع ہیں‘ ان حالات میں جہاں حکومت‘ تعلیمی اداروں اوراساتذہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ وہیں والدین کوبھی چاہیے کہ اس بات کاخیال رکھیں کہ بچے ان چھٹیوں میں اپنی توجہ پڑھائی پرہی مرکوز رکھیں‘ تاکہ سال بھر کی گئی محنت ان تین ہفتوں کی چھٹیوں میں ضائع نہ ہوجائے۔ حالات سنگین نہ ہوتے تو شاید حکومت پاکستان سپرلیگ کے فائنل مرحلے کی رونقیں کبھی بے رنگ نہ کرتی‘ مہمان کرکٹ سٹارز کو کبھی واپس نہ بھیجاجاتا اور میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے بورڈز امتحانات کے موقع پر کبھی بھی تعلیمی ادارے بند نہ کئے جاتے اورنہ ہی امتحانات ملتوی ہوتے‘ یقینا سخت فیصلے اور ٹھوس اقدامات وقت کی ضرورت ہیں‘ لیکن حکومت کو ان حالات میں کئی باتوں کی سنجیدگی سے نگرانی کرناہوگی۔ عام طورپر یہ دیکھا گیاہے کہ پنجاب گروپ آف کالجز جیسے نجی تعلیمی اداروں کے بڑے گروپ تو حکومتی ہدایات پر مکمل عمل کرتے ہیں‘ لیکن گلی محلوں میں سکولوں اورکالجوں کے نام پر کھلی چھوٹی چھوٹی دکانیں بچوں سے فیسیں اکٹھی کرنے اور والدین کو مرعوب کرنے کیلئے سرکاری احکامات کوپس پشت ڈال کر بچوں کو چھٹیاں نہیں دیتے اور کئی نجی وسرکاری ادارے بچوں کو تو چھٹیاں دے دیتے ہیں‘ لیکن مرد وخواتین ٹیچرز کو روزانہ سکول بلا لیتے ہیں۔ کورونا ایمرجنسی جہاں بچوں کیلئے خطرناک ہے ‘وہیں اساتذہ کیلئے بھی خوفناک ہے‘ لہٰذا حکومت اورانتظامیہ کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ چھوٹے نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بھی چھٹیوں کے نوٹیفکیشن پر من وعن عمل کریں۔ تعلیمی بورڈز کو بھی امتحانات کا ترمیمی شیڈول انتہائی سوچ سمجھ کر ترتیب دیناہوگا ‘کیونکہ یہ بچوں کے مستقبل کامعاملہ ہے اوراگر خدانخواستہ معمولی غلطی بھی سرزد ہوگئی تو لاکھوں بچوں کانتیجہ متاثر ہوسکتاہے۔ نئے امتحانی شیڈول میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بدلتے موسم کی صورتحال کوبھی مدنظر رکھناہوگا ۔
پاکستان میں جمعہ کو ایک روز میںکورونا کے مزید سات کیسز سامنے آ گئے‘ جس کے بعد ملکی سطح پرہنگامی اقدامات کئے گئے۔مذہبی اجتماعات سے متعلق مشاورت کی ذمے داری وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کو دے دی گئی۔پاکستان کی طرف سے کرتار پور جانے والوں پر پابندی لگا دی گئی۔ بخار‘ سانس لینے میں تکلیف اور کھانسی کورونا کی بنیادی علامات ہیں‘ لیکن ضروری نہیں کہ جس شخص کوبھی بخار ہو ‘کھانسی یا چھینک آئے یا سانس کامسئلہ ہو تو اسے کورونا ہی ہوگا ۔ ہمیں بحیثیت ِقوم اتحاد‘ سنجیدگی اور ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں‘ تاکہ افراتفری نہ پھیلے ۔ یہ بات خوش آئندہے کہ میڈیا ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے اس سنگین معاملے پر انتہائی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کررہاہے ‘تاہم سوشل میڈیا پر اکثر ریٹنگ کے چکر میں غلط پوسٹیں شیئر ہورہی ہیں‘ جو افسوسناک ہے ‘کیونکہ ایسی پوسٹوں سے بہتری کی بجائے مزید پریشانی کاسامنا کرنا پڑ سکتاہے۔
کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والی امریکی خاتون نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ میں لوگوں کو امید دلانا چاہتی ہوں کہ گھبرائیں نہیں‘ اگر آپ صبر سے کام لیں گے تو آپ بھی میری طرح اس وائرس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔بین الاقوامی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں مقیم 37 سالہ الزبتھ شنائیڈر نے بتایا کہ انہوں نے بائیو انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے اور وہ اپنی کہانی لوگوں کو اس لیے سنانا چاہتی ہیں‘ تاکہ وہ کورونا وائرس کے مریضوں کی زندہ بچنے کی امید کو بڑھا سکیں۔الزبتھ شنائیڈر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیماری کے بارے میں جاننے کیلئے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا اور سات مارچ کو ان کو بری خبر ملی کہ ان کو کورونا وائرس ہوگیا ہے۔ا نہوں نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے علاج شروع کیا اور ایک ہفتے کے بعد ان کو اِس وائرس سے چھٹکارا حاصل ہوگیا۔ خاتون نے کہا کہ اب وہ ٹھیک ہیں‘ لیکن پھر بھی زیادہ گھر سے باہر نہیں جاتی اور نہ ہی لوگوں سے زیادہ ملاقات کر رہی ہیں۔
پاکستان میں ابھی تک اس بیماری کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں‘ تاہم حکومتی ہدایات پر عمل کرکے اور احتیاط سے اس وباء پر قابو پایا جاسکتاہے۔ پورے ملک کو اس وقت یکجہتی کی ضرورت ہے اور جب تک ملک کاہر شہری ذمہ داری کامظاہرہ نہیں کرے گا‘ اس وقت تک سو فیصد کامیابی مشکل ہے ‘کیونکہ ہم پہلے ہی کئی برسوں سے پولیو اورڈینگی کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اب کورونا وائرس کیخلاف ہمیں لڑنا ہے۔