میں ذاتی طورپر متعدد ایسے پولیس افسران اوراہلکاروں کوجانتاہوں جو محنت‘ قابلیت‘ نیک نیتی‘ایمانداری اورفرض شناسی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ جو لوگوں کی خدمت کے ساتھ ان کی بہترین رہنمائی کافریضہ بھی انجام دے رہے ہیں‘ مگر ایسے بے لوث اور بے خوف پولیس افسران کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور اگر تلاش کیاجائے کہ وہ کہاں پائے جاتے ہیں تویہ کام بھی اتنا آسان نہیں کیونکہ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کو کسی ایک جگہ کون ٹکنے دیتاہے؟ ایماندار پولیس اہلکاروں کی ساری نوکری کسی بینک‘ مسجد یا پولیس افسران کی رہائش گاہوں پر بطور گارڈ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہی مکمل ہوجاتی ہے جبکہ ایماندارپولیس افسران کے لیے ملازمت پوری کرنا اوراپنی عزت بچا کر رکھنا بھی ایک چیلنج ہوتاہے کیونکہ انہیں نہ تو کوئی بااثرشخصیت پسند کرتی ہے اور محکمے کے اعلیٰ حکام بھی انہیں اپنے راستے کاپتھر سمجھ کر 'کھڈے لائن‘ ہی لگائے رکھتے ہیں۔
موٹروے پولیس کاقیام عمل میں آیا تو اسے ایک مثالی پولیس قرار دیاگیا‘ جو اپنی حدود میں قانون پر عمل درآمد کرانے کے لیے پوری طرح چاک وچوبند تھی۔ موٹروے پولیس نے ابتدا ہی سے اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے غلطیوں پر جرمانوں کی رفتار اس قدر رکھی کہ موٹروے پر داخل ہونے سے پہلے ہی ڈرائیور سیٹ بیلٹ باندھ لیتے‘ جس کا اس سے قبل پاکستان میں رواج نہیں تھا۔ اسی طرح لین کی تبدیلی اور اگلی گاڑی کو اوورٹیک کرتے وقت درست اشاروں اور شیشوں کا استعمال بھی شروع کردیاگیا جبکہ غیرضروری طور پر ہارن کے استعمال سے اجتناب اور دیگر ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نے ملک میں ایک اچھے ڈرائیونگ کلچر کی ابتدا کی جو یقیناموٹروے پولیس کا کریڈٹ ہے اوراس حد تک واقعی اسے مثالی پولیس کاخطاب بھی دیاجاسکتاہے۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی میں بھی فرق آنے لگا‘ خصوصاًموٹروے پر پہلے اگر گاڑی خراب ہوجاتی تو ہیلپ لائن پر کال کرنے کی صورت میں فوری طورپر موبائل ورکشاپ پہنچ جاتی اور گاڑی کو ٹھیک کرکے مسافروں کو اپنی منزل کی طرف رواں کردیاجاتا اوراگر خدانخواستہ کوئی بڑا مسئلہ ہوتا اورگاڑی کی خرابی موقع پر دور کرنا ممکن نہ ہوتا تو ریکوری وہیکل منگوا کر موٹروے سے باہر کسی ایسے پوائنٹ تک پہنچا دیاجاتا جہاں سے گاڑی کامالک کوئی متبادل بندوبست کر سکتاتھا‘لیکن اب اگر کوئی گاڑی خراب ہوجائے یا کوئی حادثہ پیش آ جائے اور شہری ہیلپ لائن پر کال کرے تو کال ملنے تک اکثر طویل انتظار کرنا پڑتاہے اورجب کال مل جائے تو پھر بتایا جاتا ہے کہ انتظار کریں موبائل ورکشاپ آ جائے گی۔دوروز قبل ایمرجنسی میں تلہ گنگ جانا پڑا‘ اسلام آباد واپس آتے ہوئے چکری سے آٹھ کلومیٹر پہلے گاڑی خراب ہوگئی‘ پہلے تو خود کوشش کی کہ سٹارٹ ہوجائے‘ لیکن بات نہ بنی تو ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی‘ حسبِ روایت صبر آزما انتظار کے بعد کال ملی تو بتایا گیاکہ انتظار کریں موبائل ورکشاپ آ رہی ہے۔ طویل انتظار کے بعد ورکشاپ والی گاڑی تو نہ آئی تاہم موٹروے پولیس کی ایک گاڑی آگئی جس میں سے اترنے والے انسپکٹر نے سڑک کے انتہائی بائیں کنارے کھڑی ہماری گاڑی پر اعتراض شروع کردئیے ‘ پھر نام پتہ اورموبائل فون نمبر کے ساتھ منزل کی تفصیلات اپنے پاس نوٹ کیں اور یہ بھی پوچھاکہ آپ کیاکام کرتے ہیں جب بتایا گیاکہ صحافی ہوں تو ان کے لہجے میں نرمی آگئی‘ انہیں فوراً یہ بھی خیال آگیاکہ میرے ساتھ فیملی ہے اور انہوں نے پیش کش کی اگر سفر کی وجہ سے روزہ نہیں تو ہمارے پاس پانی وغیرہ دستیاب ہے‘ پھر انہوں نے اپنے فون سے ورکشاپ والوں کو کال کی اور انہیں روٹین سے جلدی پہنچنے کی ہدایت بھی کردی۔ کچھ دیر بعد موبائل ورکشاپ آگئی‘ جس میں ڈرائیور اور مکینک سمیت تین افراد تھے‘ لیکن کسی نے نہ تو فیس ماسک پہن رکھے تھے نہ ہی کسی کے پاس دستانے تھے ‘ انہیں دیکھ کر معلوم ہوگیاکہ موٹروے پولیس کی کورونا سے بچائو کے لیے جاری کردہ ہدایات شاید صرف اشتہارات اورپیغامات تک ہی محدود ہیں‘ انہوں نے گاڑی کاانجن چیک کیا اورکوشش کی کہ ٹھیک کریں لیکن کامیابی نہ ہوئی تو سرکاری ریکوری وہیکل کو کال کرکے ایک بار پھر صبر سے انتظار کی ہدایت کی گئی ۔ طویل انتظار کے باوجود ریکوری وہیکل تو نہ آئی تاہم موٹروے پولیس کی ایک اورگاڑی آگئی ‘ انہوں نے بھی کاغذی کارروائی کے بعد وہاں سے گزرنے والی موبائل ورکشاپ کو روک کر ان سے رسی خریدنے کی ہدایت کی‘ ورکشاپ والے نے نائیلوں کی تقریباً اڑھائی میٹر رسی 200روپے میں دی اورپھر پولیس والوں نے ایک ٹرک روک کر اسے کہاکہ یہ گاڑی باندھ کر موٹروے سے باہر تک پہنچا دینا اور ساتھ مجھے ہدایت کی کہ ٹرک ڈرائیور کی کچھ خدمت کردینا‘ ٹرک والے نے چکری سروس ایریا میں پہنچ کر کہاکہ اب یہاں سے آگے آپ اپنا بندوبست کرلیں۔ موٹروے ہیلپ لائن پر دوبارہ کال کی تو ڈیوٹی پر موجود محترمہ نے بتایاکہ اب آپ سروس ایریا میں پہنچ گئے ہیں ‘ یہاں پرائیویٹ ورکشاپ بھی موجود ہے اور سروس ایریا سے آپ کو سرکاری ریکوری کی مدد بھی نہیں مل سکتی ‘ اس لئے میں آپ کو ایک پرائیویٹ ریکوری کانمبر دیتی ہوں آپ ان کے ساتھ ڈیل کرلیں۔ معلوم ہوا کہ اب موٹروے پولیس صرف کاغذی کارروائی سے ہی کارکردگی ظاہر کرتی ہے اور ہیلپ لائن والوں کا پرائیویٹ ریکوری وہیکل والوں کے ساتھ مبینہ طورپر کمیشن طے ہوتاہے اسی لئے وہ لوگوں کو پرائیویٹ ریکوری کی مدد لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ چکری سے ایک پرائیویٹ گاڑی کے ساتھ باندھ کر راولپنڈی کیلئے روانہ ہوئے تو راستے میں موٹروے پولیس کی ایک ایمبولینس نے بھی روکا اور نام نمبر وغیرہ نوٹ کیا‘ ایمبولنس کی جانب سے روکنے کامطلب صرف اتنا ہی سمجھ آیا کہ شاید وہ بھی کاغذی کارروائی کرکے یہ ظاہر کرناچاہتے تھے کہ انہوں نے بھی ہماری مدد کی۔
موٹروے پولیس کے حکام کو چاہیے کہ اپنے ذرائع سے ایسے واقعات کی انکوائری کروائیں اور موٹروے پولیس کے معاملات خصوصاًہیلپ لائن کے عملے میں سے کالی بھیڑوں کونکالیں تاکہ یہ فورس حقیقی طور پر مثالی پولیس ثابت ہو۔اسی طرح آئی جی پنجاب پولیس کو بھی چاہیے کہ سٹی ٹریفک پولیس کی اصلاح کے لیے بھی کوئی قدم اٹھائیں کیونکہ اب وہ بھی ٹریفک رواں دواں رکھنے سے زیادہ لوڈنگ والی گاڑیوں کو روکنے میں ہی دلچسپی لیتے ہیں۔