عدالت عظمیٰ کافیصلہ بالکل درست اور بنیادی انسانی حقوق کے عین مطابق ہے‘ جب حکومت نے تنگ وتاریک بازار اور مارکیٹیں کھول دی ہیں‘ جہاں انتظامیہ اورپولیس چاہے بھی تو شاپنگ کی بھوکی قوم کو ایس اوپیز پر عمل درآمد نہیں کراسکتی تو پھر بڑے شاپنگ مالز اور ڈیپارٹمینٹل سٹورز جن کا سکیورٹی سسٹم بھی مناسب ہوتاہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بھی آسان ہوتاہے‘ انہیں بند رکھنے کاکوئی جواز باقی نہیں تھا۔ لاک ڈائون کھلنے کے بعد راولپنڈی اورلاہور سمیت بڑے شہروں کے بازاروں میں جو رش پڑا ‘جس طرح ایڑی سے ایڑی ٹکرا رہی تھی اور مردوخواتین کی دھکم پیل میں کوئی تمیز نہ تھی اس سے ہر ذی شعور شہری پریشان تھا کہ خدانخواستہ اگر ان بازاروں میں ایک ایک بھی کورونا وائرس سے متاثرہ شہری آیا تو وہ سینکڑوں لوگوں کو بیمارکرے گا اورپھر اس سے متاثر ہونے افراد مزید کیریئر کاسبب بنیں گے ‘لیکن دوسری طرف شاپنگ مالز میں داخلی وخارجی راستے الگ الگ ہوتے ہیں‘ وہاں زیادہ تر گاہک پڑھے لکھے اورباشعور ہونے کی وجہ سے فیس ماسک اورہینڈ سینی ٹائزر کااستعمال کرتے ہیں ‘جبکہ سماجی فاصلے کابھی خیال رکھاجاتاہے ‘لہٰذا سپریم کورٹ نے صحیح حکم دیا کہ سب سے یکساں سلوک کرو۔
ریسٹورنٹس کے سوا تمام فوڈپوائنٹس تو پہلے دن سے کھلے ہیں‘ کپڑے اورجوتے کی دکانیں کھل گئیں‘ جہاز اڑنا شروع ہوگئے‘ بسیں‘ ویگنیں اورسوزوکیاں سڑکوں پر آگئیں‘ بازاروں میں دھکم پیل اور شاہراہوں پر ٹریفک جام کے مناظر دیکھنے کومل رہے ہیں ‘ مسافر مختلف شہروں کاسفر کرنے لگے ہیں ‘ حجام کی دکانیں تک کھلی ہیں تو پھر دوسرے شہروں سے آنے والے مسافروں کیلئے ریسٹورنٹس اورہوٹلوں کی بندش کا اب کیاجواز باقی ہے؟اگر بس اورسوزوکی میں سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر بیٹھا جاسکتاہے (جوکہیں بھی نہیں ہورہا)تو پھر ریسٹورنٹس میں ڈائننگ ٹیبل پر کرسیوں میں فاصلہ کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ ریسٹورنٹس سے بھی لاکھوں افراد کاروزگار وابستہ ہے اورموجودہ حالات میں انہیں بند رکھنا قطعی نامناسب ہوگا ‘اسی طرح شہریوں کی سہولت کوبھی مدنظر رکھاجائے اورحکومت فوری طورپر ریسٹورنٹس کو ایس اوپیز کے مطابق کھولنے کی اجازت دے۔جلد ہی ملک بھر میں ریل کاپہیہ بھی چل پڑے گا ‘ابتدائی طور پرتیس ٹرینیں چلائی جائیں گی اوروزیرریلوے شیخ رشیداحمد کے مطابق‘ اگر حالات سازگار رہے تو یکم جون سے تمام ٹرینیں بحال کردی جائیں گی۔ہدایت نامے کے مطابق‘ اگر کوئی مسافر ان ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سماجی فاصلہ برقرار نہیں رکھے گا تو اسے پہلی دفعہ 500روپے جرمانہ‘ دوسری دفعہ 1000روپے اور تیسری دفعہ اسے اگلے سٹاپ پراتار دیا جائے گا‘دوران سفر تمام مسافروں کا ٹمپریچر چیک کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فرازکہتے ہیں کہ حکومت نے بڑے شہروں میں شاپنگ مالز کھولنے اور ٹرینیں چلانے کی اجازت دے دی ہے ‘ لیکن عوام یہ نہ سمجھیں کہ دکانیں کھل رہی ہیں اور ٹرینیں چل رہی ہیں تو حالات ٹھیک ہو گئے ہیں‘ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔پاکستان ایک غریب ملک ہے ‘ ہمارے وسائل بہت محدود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بڑے شہروں میں شاپنگ مالز اور کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے اور ان پر چھوڑ دیاہے کہ اگر وہ ہفتہ‘ اتوار کو بھی کھولنا چاہیں تو ممانعت نہیں ہو گی‘ عید کی چھٹیوں کے دوران بھی انڈسٹری چلانے کی اجازت ہو گی‘ حکومت اس سلسلہ میں دخل اندازی نہیں کرے گی‘ بازاروں میں سماجی فاصلوں پر عمل یقینی بنایا جائے ‘ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔خیر‘ حکومت خیرمقدم کرے یانہ کرے‘ اب عمل تو کرنا ہی پڑے گا ۔
آج کل سوشل میڈیا پر ہروہ شخص جسے میسیج فارورڈ کرنا آجاتاہے‘ وہ ہی دانشور اورتجزیہ کار بن جاتاہے‘ جسے تحصیل اورضلع کافرق معلوم نہیں ہوتا اورجسے ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ بارے کچھ علم نہیں ہوتا‘ وہ بھی عدالتی فیصلوں پر تبصرہ کرنے بیٹھ جاتاہے ‘جبکہ ہمارے بعض صحافی اوراینکر پرسن بھی یہ راگ الاپ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کام فلاں کا نہیں ‘بلکہ فلاں کاہے۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ جب حکومت اپناکام نہیں کرے گی ‘ عوامی پالیسیاں ایسے مشیر بنائیں گے‘ جنہیں آٹے اوردال کابھائو تک معلوم نہیں ہوتا‘ تو پھر ایک عام شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالت کانوٹس لینا اور حکم جاری کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ویسے بھی جب تک حکومت نے عام مارکیٹس اوربازار نہیں کھولے‘ پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلی اور جب تک نوے فی صد سے زائد عوام گھروں سے باہر نہیں نکلے تو اس وقت تک عدالت نے بھی بڑے شاپنگ مالز کھولنے کاحکم نہیں دیاتھا۔
حکومت نے ٹرین کو غریب کی سواری قرار دے کر بحال کردیاہے اور تادم تحریر کئی ٹرینیں اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوچکی ہیں تو پھر شہروں میں غریب کی حقیقی سواری میٹروبس کو بند رکھنے کابھی کوئی جواز باقی نہیں رہا‘ اگر ویگن‘ سوزوکی‘ عام بس اورٹرین میں ایس اوپیز پر عمل درآمد کیاجاسکتاہے (عمل ہونا یا نہ ہوناالگ بات ہے) تو پھر میٹروبس کے اندر اورسٹیشنوں پر ایسا کیوں ممکن نہیں؟ میٹروبسوں میں بھی پچاس فی صد سواریاں بٹھا کر اوردیگر ایس اوپیز پر عمل کرکے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں‘ نیز میٹروبسوں کاکرایہ پہلے بیس روپے تھا ‘جو موجودہ حکومت نے بڑھا کر تیس روپے کردیاتھا‘ اب موجودہ صورت ِ حال میں جہاں حکومت دیگر کئی شعبوں میں سبسڈی دے رہی ہے اورپٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ مالکان کو کرایہ کم کرنے کاکہہ رہی ہے تو وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ میٹروبس کاکرایہ بھی دوبارہ بیس روپے کردیاجائے‘ کیونکہ ان بسوں میں استعمال ہونے والا ڈیزل بھی تو اتنا ہی سستاہوا ہے اور ان میں سفر بھی کوئی صنعتکار‘ وڈیرا‘ بزنس مین اور وزیر نہیں کرتا‘ بلکہ عام مزدور‘ طالبعلم اورسرکاری ملازمین (مردوخواتین) ہی بیٹھتے ہیں‘ جن کی آمدنی محدود ہوتی ہے اورلاک ڈائون کی وجہ سے آج کل اکثر بے روزگار ہیں۔علاوہ ازیں جب ٹرینیں‘ شاپنگ مالز اور بازار وغیرہ کھل گئے ہیں‘ تو اب حکومت کوچاہیے کہ ریسٹورنٹس کو کھولنے کے ساتھ بڑے شہروں کی میٹروبس سروس کو بھی چلایا جائے۔