کہتے ہیں کہ شور اورشعور میں صرف 'ع‘ کافرق ہے لیکن یہ فرق معمولی نہیں ہے‘ کیونکہ علم‘ عقل‘ عمل‘ عشق اور عظمت اسی 'ع‘ سے ہی شروع ہوتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں سوشل میڈیا کے دانشور باقی دنیا سے کچھ زیادہ ہی تیز جارہے ہیں‘ جن کی پچھلی سات نسلیں بھی فوج کے بارے کچھ نہیں جانتی تھیں وہ بھی سوشل میڈیا پر دفاعی مبصر بنے بیٹھے ہیں‘ جنہیں چائے اورقہوے کافرق معلوم نہیں وہ ماہر ڈاکٹر بن کر کورونا وائرس سمیت دنیا بھر کی پیچیدہ بیماریوں کا علاج کررہے ہیں‘ جنہوں نے زندگی میں کبھی ووٹ بھی نہیں دیا وہ سیاسی تجزیہ کار بن کر روز حکومتیں بناتے اورگراتے ہیں‘ جنہوں نے کبھی کسی ڈھنگ کی بس پر بھی سفر نہیں کیا وہ جہازوں کے حادثات پر اس طرح ماہرانہ تبصرے کررہے ہیں جیسے ساری عمر جہاز اڑاتے رہے ہیں۔جوخود سبزی کابقایا ہڑپ کر جاتے تھے وہ کرپشن کے خلاف ایسے ایسے لیکچر جھاڑتے ہیں گویا ان سے بڑا دیانتدار شخص دنیا میں کوئی نہیں ‘ جنہیں کلمہ بھی صحیح نہیں آتا وہ مذہبی عقائد پر فتوے دے رہے ہیں‘ جو شوبز میں ساری زندگی سٹیج ڈرامے کا چھوٹا سا کردار بھی نہیں کر پائے وہ سوشل میڈیا پر اینکر بن کر بڑے بڑے معززین کی توہین کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے بھی ابھی تک اس قوم نے سنجیدگی اختیار نہیں کی اوراس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا کے 'ع‘ سے عاری دانشوری ہے جس میں ہر روز نئی سے نئی باتیں گھڑی جارہی ہیں ‘ کبھی قوم کو یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں پایا جانے والا کورونا وائرس باقی دنیا سے مختلف ہے اور اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا‘ کوئی بتاتا ہے کہ یہ صرف حکومت کافراڈ ہے اور عالمی امداد لینے کیلئے ڈھونگ رچایا جارہاہے حالانکہ ان عقل کے اندھوں کو کوئی نہیں بتاتاکہ امریکہ اورچین نے تو آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینا ‘ کوئی کہتاہے کہ درجہ حرات چھبیس ڈگری ہوتو کورونا ختم ہوجاتاہے حالانکہ وہ جاہل خود چالیس ڈگری سینٹی گریڈسے زیادہ درجہ حرارت میں جل رہے ہوتے ہیں‘ دنیا میں بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے جدید ترین ہیلتھ سسٹم تو ابھی تک اس عالمی وبا کاعلاج دریافت نہیں کرسکے اور صرف احتیاطی تدابیر ہی ابھی تک اس کا حل ہیں‘ لیکن سوشل میڈیا پر صبح‘ دوپہر ‘ شام نت نئے علاج اورٹوٹکے دھڑا دھڑ دریافت ہورہے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا اثر الٹا ہی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ لیکن قوم کو کون بتائے کہ ان اَن پڑھ دانشوروں میں شعور نہیں بلکہ صرف شور ہی شور ہے اور یہ سوشل میڈیا شاید پبلسٹی اورپیغام رسانی کیلئے تو بڑا مؤثر ہے لیکن علم‘ علاج اورعمل کیلئے زیادہ قابل بھروسہ نہیں۔
عید کے موقع پر ہم نے جس قدر بے احتیاطی دیکھی اورہر کسی کو یہ کہتے سنا کہ ''کچھ نہیں ہوتا‘‘ یہ انتہائی تشویشناک تھا۔ عید سے قبل بازاروں میں خریداری کیلئے جس طرح عوام ٹوٹ پڑے اس کے نتائج گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور اچھے بھلے ہٹے کٹے اور ہنستے مسکراتے چہرے اب قرنطینہ میں پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔ عید کے موقع پر 'کچھ نہیں ہوتا‘کہہ کر جس طرح لوگ ایک دوسرے کو زبردستی گلے ملتے رہے اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات اور حکومتی ایس اوپیز کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کا مطلب یہی ہے کہ قوم میں ابھی تک شعور کی کمی ہے اورصرف شور پر چل رہی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے موٹرویز پر اس لئے کم نہیں کئے گئے کہ پچاس فی صد سیٹیں خالی رکھی جائیں گی اوردو والی سیٹ پر صرف ایک سواری بیٹھے گی‘ لیکن عید کے دنوں میں ذاتی طور پر سفر کاتجربہ ہوا‘ کرایہ تو پورا لیاگیا لیکن سواریاں نصف والے اصول کی بجائے دو‘ دو والی سیٹ پر تین‘ تین بٹھائی گئیں‘ نہ تو کسی نے موٹروے پر روکا‘ نہ ہی ٹول پلازے پر کسی نے چیک کیا اورنہ ہی کسی بس ٹرمینل پر ایس اوپیز کاخیال رکھاگیا۔ یہاں صوبائی حکومت کی یہ بات سمجھ نہیں آئی‘ جس نے ٹرانسپورٹ بحال کرانے کیلئے نہ صرف ٹرانسپورٹروں کے تمام مطالبات تسلیم کئے بلکہ انہیں من مانی کی اتنی چھوٹ بھی دی ‘ حالانکہ اگر حکومت پچاس فی صد سواریوں کے ساتھ کرایہ کم کرنے کی بات پر قائم رہتی تو انہی ٹرانسپورٹروں نے حکومتی عہدیداروں کی منت سماجت کرنی تھی کہ انہیں گاڑیاں چلانے کی اجازت دی جائے کیونکہ اگر وہ گاڑیاں نہیں چلائیں گے تو ان کا نقصان ہو گا‘ لیکن شاید یہاں بھی آٹے اورچینی کی طرح کچھ مافیا موجود ہیں جنہوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی کے باوجود کرایہ بھی کم نہیں کیا اور سیٹ ٹو سیٹ سواریاں بھی بھری جارہی ہیں جو کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلائو کا سبب بن رہاہے۔ ٹرانسپورٹ اورکاروبار تو کھول دئیے گئے لیکن ریسٹورنٹس ابھی تک بند پڑے ہیں اور مسافر اورمزدور کھانے پینے کیلئے بیکریوں سے مہنگی اشیا خریدنے پر مجبور ہیں‘ حالانکہ ریسٹورنٹ واحد کاروبار ہے جہاں ایک میز پر چار کی بجائے دو کرسیاں لگا کر سماجی فاصلے کا خیال رکھا جاسکتاہے ‘ اس سے نہ صرف شہریوں کو کھانے پینے کی سہولت میسر ہوگی بلکہ اس کاروبار سے وابستہ لاکھوں خاندانوں کے چولہے بھی گرم ہوپائیں گے‘ لہٰذا حکومت کو اس مسئلے پر بھی فوری توجہ دینی چاہیے اور ایس اوپیز کے تحت ریسٹورنٹ کھولنے کی اجازت بھی دینی چاہیے۔
کئی بار سناکہ اب جو بھی سوشل میڈیا پر کورونا وائرس بارے غیرمصدقہ بات شیئر کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘ لیکن اب یہ بھی سوشل میڈیا کا ہی ایک من گھڑت بیان لگتاہے۔ ہمارے ملک میں پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر تو کئی قسم کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں حالانکہ سوشل میڈیا پر جو مرضی باتیں چلتی رہیں اور بے شک جاہل لوگ گالیاں دیتے رہیں لیکن حقیقت میں پاکستانی میڈیا انتہائی ذمہ دار ہے‘ تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار صحافی بیٹھے ہیں جو پالیسی بنانے سے لے کر خبر چلانے تک ہر مرحلے میں اسلام‘ پاکستان اورانسانیت کے پہلوئوں کومدنظر رکھتے ہیں اور قوم کو چوبیس گھنٹے یہ سمجھانے میں لگے ہوئے ہیں کہ اپنی اوراپنے پیاروںکی قیمتی صحت اورزندگی کیلئے خدارا احتیاط کیجئے‘ مصافحہ نہ کریں‘ گلے نہ ملیں‘ ہاتھ صابن سے بار بار دھوئیں‘ ایک دوسرے کے درمیان کم ازکم چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں‘ فیس ماسک کا استعمال یقینی بنائیں اورغیر ضروری گھروں سے نہ نکلیں‘ لیکن ہمارے عوام ہیں کہ کچھ نہیں ہوتاکہہ کر تمام ایس اوپیز کو مکمل نظر انداز کررہے ہیں جس کے بھیانک نتائج سامنے آنا شروع ہو بھی گئے ہیں اور کورونا کے متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔اب بھی حکومت اورعوام دونوں کے پاس وقت ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل یقینی بنایاجائے تاکہ خود بھی محفوظ رہ سکیں اوردوسروں کوبھی متاثر نہ کریں۔ اب ہمیں سوشل میڈیا کے شور کی بجائے شعور سے کام لینا ہوگا اور سوشل میڈیا پر جو باشعور لوگ ہیں انہیں قوم کو حقیقت سمجھانے میں اپنا کردار ادا کرناہوگا کیونکہ بہت سے سنیئرصحافی اور پروفیسر بھی سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں انہیں چاہیے کہ قوم کو بتائیں کہ احتیاط نہ کی گئی تو پھر خدانخواستہ'ہوبھی سکتاہے‘ اور اسی سے بچنا ہوگا۔