پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا انتہائی شدت اختیار کرچکی ہے‘ ملک بھر میں کورونا متاثرین کی تعداد تقریباًنوے ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس عالمی وبا سے ملک میں تقریباًانیس سو اموات واقع ہوچکی ہیں۔ زندگی کاکوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس وبا سے متاثر نہ ہوا ہو‘ کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں تک یہ وائرس نہ پہنچا ہو‘ تمام خدشات درست ثابت ہورہے ہیں اور یہ مرض آہستہ آہستہ بے قابو ہوتا جارہاہے۔ 'کچھ نہیں ہوتا‘ کہنے والے لوگوں میں بیماری کاخوف شدید ہوتا جارہاہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اب تو موت کی تلوار سر پر لٹکتی دکھائی دینے لگی ہے‘ لیکن ابھی تک حکومت کوئی ٹھوس اور واضح پالیسی اختیار نہیں کرسکی‘ پانی سر سے گزرتا جارہاہے ‘لیکن ابھی تک وفاق اورصوبوں میں رابطے کافقدان پایاجاتاہے۔ حکومت ایک طرف کھیلوں کے میدان کھولنے پر تیار نہیں بلکہ دو روز قبل اسلام آباد میں پاکستان سپورٹس کمپلیکس کو بھی سربمہر کردیاگیا ‘ کھلاڑیوں کو ایس اوپیز کے تحت بھی پریکٹس اورٹریننگ کی اجازت نہیں دی جارہی‘ بیڈمنٹن اورٹیبل ٹینس جیسے کھیل‘ جن میں ایس اوپیز کواختیار کرنا بہت آسان ہے ‘ ان پربھی پابندی عائد ہے‘ ریستوران تو بند ہیں جن سے مزدوروں اورمسافروں کو مشکلات کاسامنا بھی کرنا پڑرہاہے لیکن ایسے حالات میں اچانک پنجاب حکومت نے لاہور اورراولپنڈی سمیت صوبے بھر کے تمام چھوٹے بڑے پارک کھولنے کے احکامات جاری کردئیے ہیں اور75روز کے بعد گزشتہ روز عوام نے پارکوں کا رخ کیا۔ صوبائی حکومت نے پارک کھولنے کیلئے مؤقف اختیار کیاہے کہ عوام کورونا کی وبا کے دوران کھلی فضا میں سانس لے سکیں اور معاشرے سے وبا کے باعث پیداشدہ اضطراب اوربے چینی کا خاتمہ ہو۔پارکوں میں آنے والوں کو محکمہ صحت کی طرف سے وضع کردہ ایس اوپیز کے تحت ماسک کا استعمال لازمی کرنا ہوگا بصورت دیگر پارک میں داخلے سے روک دیا جائے گا۔سماجی دوری کوقائم رکھنے کیلئے بچوں کے جھولے اور کھیل کود کی جگہیں تاحکم ثانی بند رہیں گی۔ عوام سے درخواست ہے کہ محکمہ صحت کی ایس اوپیز کو اپناتے ہوئے پارکس میں تشریف لائیں تاکہ وہ اپنی اور اپنی نسلوں کی صحت اور زندگی کی حفاظت کر سکیں۔ پارکس میں کسی قسم کے اجتماع اور مجمع لگانے کی اجازت نہیں ہوگی اور پارکس کو صرف صبح شام سیر اور ورزش کیلئے کھولا گیا ہے تاکہ عوام میں کورونا وبا کے خلاف قدرتی قوت مدافعت پیداکی جاسکے جو اس بیماری کا واحد قدرتی حل ہے۔صوبائی حکومت کی نیت بے شک اچھی ہوگی اورمقصد صرف عوام کو بے چینی سے بچانا اور سیروتفریح کی سہولت مہیا کرناہوگا لیکن عید سے پہلے جس طرح بازاروں میں ایس اوپیز کو نظرانداز کیاگیا یہی حال پارکوں میں بھی دیکھنے کوملے گا‘ لوگ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے رہیں گے۔ پارکوں کے داخلی اورخارجی گیٹوں پر بھی رش دیکھاجا رہا ہے اورایس اوپیز صرف فیس ماسک کی حد تک ہی اختیار کی جارہی ہیں جبکہ بعض مقامات پر یہ بھی دیکھاگیاکہ لوگوں نے پارک میں داخلے کے بعد ماسک بھی اتار دئیے جوخطرناک ہی نہیں بلکہ کورونا وائرس کے مزید تیزی سے پھیلائو کا سبب بھی بنے گا‘ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ ایس اوپیز پر سختی سے عمل درآمد کرایاجائے اوراگر عوام سو فی صد تعاون نہ کریں تو پھر اس فیصلے پرفوری نظرثانی کی جائے اور بڑے نقصان سے بچاجائے۔
ملک بھر میں سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال اورپالیسی بھی ایک عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے ‘ کہیں تو متاثرین کے ٹیسٹ ہی نہیں ہورہے اورلوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کورونا ٹیسٹ کرانے سے محروم ہیں تو کہیں سرکاری ہسپتالوں میں عام مریضوں کوبھی زبردستی کورونا وارڈ میں داخل کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں‘ بعض ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ کوئی مریض ہسپتال پہنچنے پر دم توڑ گیا یا کسی دوسرے مرض کے باعث انتقال کرگیاتو ہسپتال انتظامیہ نے اس کی موت کاسبب بھی کورونا وائرس کو قرار دینے کی کوشش کی‘ کہیں ڈاکٹر اورطبی عملہ کامیاب ہوگیا تو کہیں اس کے نتیجے میں جھگڑا پیداہوا اورنوبت لڑائی اورمقدمات تک جاپہنچی۔ بعض ذرائع اس زبردستی کی وجہ اس بجٹ کو قرار دے رہے ہیں جو ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کے علاج معالجے پر خرچ کی صورت میں ظاہر کیاجارہاہے۔ انہی شکایات کے باعث عوام میں کورونا وائرس بارے مختلف شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے اور کوئی کہتاہے کہ بیماری ہے ہی نہیں صرف بیرونی امداد کیلئے مریضوں کی تعداد بڑھانے کیلئے لوگوں کو زبردستی کورونا پازیٹیو ظاہر کیاجارہاہے‘ یقینا یہ شکایات حکومت تک بھی لازمی پہنچتی ہوں گی‘ کسی نہ کسی نے تو اپنے طور پر انکوائری بھی کی ہوگی‘ یہ حقیقت بھی ہرکوئی جانتاہے کہ جہاں مالی معاملات ہوتے ہیں وہاں بدعنوانی کاخطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اوران کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے تو ووٹ ہی کرپشن ختم کرنے کانعرہ لگا کر حاصل کئے ہیں‘ لہٰذا اب یہ ذمہ داری بھی وزیراعظم صاحب کو خود ہی اٹھانا ہوگی کہ ہسپتالوں کی صورتحال پر سخت چیک اینڈبیلنس رکھاجائے۔
ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اگر کہیں آسانی سے ایس اوپیز پر عمل ہوسکتاہے تو وہ صرف میٹروبس ہے کیونکہ سب سے پہلے تو بس سٹیشن میں داخلے کی اجازت ہی سماجی فاصلے کوبرقرار رکھتے ہوئے اوربس میں مطلوبہ تعداد کومدنظر رکھ کر دی جاسکتی ہے اور پھر پہلے بھی بس میں سوار ہونے سے قبل مسافروں کی قطار بنائی جاتی تھی ‘ یہی اصول اب بھی اپناجاسکتاہے لیکن میٹروبس جو ایک عام مزدور اورغریب کی سواری ہے اس کی سروس بحال نہیں کی گئی اور عام بسیں‘ ویگنیں‘ ٹرینیں اورجہاز وغیرہ سب کچھ چلنے کی اجازت دے دی گئی ‘ اگر دیکھاجائے تو جہازوں کے سوا ٹرانسپورٹ کے دیگر تمام شعبوں میں ایس اوپیز کومکمل نظرانداز کیاجارہاہے ‘ نہ توکرایہ کم کیاگیا اورنہ ہی مسافروں کی تعداد کم کی گئی ۔ اسی طرح جب موٹرسائیکل ڈبل سواری پر پابندی سخت ہوتی ہے تو سکیورٹی فورسز اورمیڈیا کو استثنیٰ دیاجاتا ہے کیونکہ انہیں تو کورونا وائرس متاثر نہیں کرسکتا اورپولیس کاسارا زور ایک عام غریب اورمزدور کوپکڑنے پرہوتاہے جس کے باعث موٹرسائیکل کے سوا دوسرا کوئی آپشن موجود ہی نہیں ہوتا‘ لہٰذا حکومت کو ایک عام آدمی کے مسائل کوبھی سمجھناہوگا کیونکہ وائرس امیر اورغریب کی تفریق کونہیں سمجھتا۔
سندھ کے وزیر صحت کاکہناہے کہ لاک ڈائون میں نرمی سے وقت ہمارے ہاتھ سے نکل گیا‘ملک کو کورونا کی شکل میں بہت بڑے بحران کا سامنا ہے ‘ ہم لاک ڈائون کے لیے چیختے چلاتے رہے مگر کسی نے نہیں سنی‘اب صرف لاہور میں 7لاکھ لوگ بیمار پڑے ہیں۔سندھ میں کورونا وائرس کی صورتحال خطرناک ہے ‘ مریض ہسپتال میں بستر تلاش کرتے رہیں گے لیکن ان کو نہیں ملے گا‘ یہی حال اس ملک کا ہونے جا رہاہے ‘ ہم بحران کی طرف جا رہے ہیں‘ ہر گھر سے کورونا متاثرین نکلیں گے ‘ ہمارے پاس بستر ناکافی ہیں۔ وزیرتعلیم سندھ نے کہا ہے کہ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے سکول نہیں کھولے جائیں گے ‘ کسی بھی صورت بچوں کی صحت پر سمجھوتا نہیں کریں گے ‘ موجودہ صورتحال کا حل سخت لاک ڈائون نہیں کرفیو ہے ۔ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں کوچاہئے کہ زندگی رہی تو سیاست ہوتی رہے گی‘ فی الحال قوم کے جان اور صحت بارے سوچیں اور تمام ترسیاسی اختلافات کوبھلا کر وبائی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مشترکہ ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے اورلاک ڈائون میں کبھی نرمی اورکبھی گرمی کاتماشاختم کرکے یکساں پالیسی اختیار کرکے ایس اوپیز پرسختی سے عمل درآمد کرایاجائے۔