پاکستان میں کورونا کی شدت کم ضرور ہوئی ہے لیکن وائرس ابھی ختم نہیں ہوا۔ جونہی حکومت نے لاک ڈائون ختم کیا تو ساتھ ہی پاکستانی قوم کا وہ خوف بھی ختم ہو گیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں مجموعی طور پر تیس سے چالیس فیصد تک احتیاط برتی جا رہی تھی۔ اب تو گلی محلوں، بازاروں، کاروباری مراکز، بس اڈوں، ریلوے سٹیشنوں، نجی و سرکاری دفاتر، اجتماعات اور تقریبات میں لوگوں نے احتیاط کرنا ہی چھوڑ دی ہے اور کورونا وائرس سے بچائو کے لئے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات و ایس او پیز ماضی کا قصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہر دکان اور دفتر کے باہر ''نو ماسک‘ نو اینٹری‘‘ کا اعلان تو چسپاں ہے لیکن نوے فیصد سے زائد دکانوں میں نہ تو دکاندار خود ماسک کا استعمال کر رہے ہیں اور نہ ہی اب یہ خریداروں کے لیے ضروری شرط ہے۔ اسی طرح دفاتر میں بھی ماسک کا استعمال شاید دس فیصد سے زیادہ نہیں رہا۔ مختلف اداروں کے داخلی دروازوں پر لگائے جانے والے ڈِس انفیکشن گیٹ بھی غیر فعال ہو چکے ہیں اور سینی ٹائزر کا استعمال بھی تقریباً متروک ہو چکا ہے۔ ہاتھ نہ ملانے والی بات تو بہت معمولی ہے‘ اب تو ہرکوئی گلے ملے بغیر راضی نہیں ہوتا۔ بار بار ہاتھ دھونے والی بات بھی پرانی ہوتی جا رہی ہے اورشاید بہت جلد لوگ اسے بالکل ہی بھول جائیں گے۔ اب رہ گئی بات سماجی فاصلے کی تو اس پر پہلے بھی بہت کم عمل ہو رہا تھا اوراب تو لوگ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی قطعاً کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے۔
اس بے احتیاطی پر میرے نزدیک صرف عوام الناس پر الزام دھرنا درست نہیں بلکہ اس کی وجہ شاید حکومت کی جانب سے ایک دم سے قرنطینہ مراکز کی بندش، فیلڈ ہسپتالوں کا خاتمہ اور کورونا ٹیسٹوں میں کمی ہے جس سے ایک عام تاثر یہ ملا کہ شاید اب پاکستان میں کورونا وائرس ختم ہو چکا ہے۔ حکومت نے اس عالمی وبا کی کمی پر جس طرح عالمی سطح پر داد سمیٹنے کی کوشش کی‘ اس نے بھی عام آدمی پر یہی تاثر چھوڑا کہ اب ہمارے ملک میں خطرہ ٹل چکا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اب بھی اتنی ہی احتیاط کی ضرورت ہے جتنی آج سے دو یا چار مہینے پہلے تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کووڈ 19 سے بچائو کے لئے آگاہی مہم بھی کمزور پڑ چکی ہے اور متعلقہ اداروں یا محکمہ جات کی جانب سے آگاہی مہم پر اتنی توجہ بھی نہیں دی جا رہی جتنی اس کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے ایک پروفیسر صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے سوال کیا کہ کورونا وائرس کہاں ختم ہوا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں اس وبا کے کیسز جاری ہیں بلکہ اگر عالمی سطح پر مجموعی اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ابھی گراف بلند ہی ہو رہا ہے‘ صرف پاکستان میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ کورونا وائرس پر قابو پا لیا گیا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ آج بھی پہلے جتنی تعداد میں کورونا ٹیسٹ کریں تو معلوم ہو گا کہ حقیقت کیا ہے اور ملک میں کورونا پازیٹیو مریضوں کی اصل تعداد کیا ہے؟ پروفیسر صاحب یہ بات ہرگز ماننے کو تیار نہ تھے کہ کورونا ختم ہو چکا ہے، محفل میں موجود دیگر لوگ بھی ان کی بات سے متفق نظر آئے بلکہ پروفیسر صاحب نے لیپ ٹاپ پر عالمی سطح پرکورونا کا گراف بھی دکھایا جو واقعی بلندی کی طرف جاتا نظر آ رہا تھا۔
اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کرنے کے ساتھ ایک بار پھر سے پریشان بھی کر دیا‘ سو میں نے کسی اعلیٰ سرکاری افسر سے حقائق معلوم کرنے کی ٹھان لی اور ضلع کی ایک بااختیار شخصیت کے پاس پہنچ گیا۔ ان سے کہا کہ 'آف دی ریکارڈ‘ ہی سہی مگر سچ سچ بتائیں کہ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان میں یہ وبا ختم ہو رہی ہے یا جو ایک عام تاثر پایا جا رہا ہے کہ ٹیسٹوں کی کمی سے حقیقت سامنے نہیں آ رہی تو ان کا کہنا تھا کہ ''پاکستانی قوم نے اس وائرس کو برداشت کر لیا ہے، اگر ایسی بات ہوتی کہ حکومت ٹیسٹ نہیں کر رہی اور ابھی شدت برقرار ہوتی تو پھر روزانہ کی بنیاد پر اموات کی شرح کم نہ ہوتی‘‘۔ وہ حکومت اور انتظامیہ کا بھرپور دفاع کر رہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ واقعی اب وبا کی شدت کم ہو چکی ہے اور اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ احتیاط برتیں اور ایس او پیز پر مکمل عمل کریں۔ اگر خدا نخواستہ اس وائرس کی شدت میں دوبارہ اضافہ ہوا تو اس کی ذمہ داری عوام پر ہی عائد ہوگی کیونکہ حکومت ملک کی کمزور معیشت کے باعث سال بھر زبردستی لاک ڈائون تو نہیں کرا سکتی۔
حقیقت جاننے کے لئے عالمی ادارۂ صحت کے پاکستان میں ایک نمائندے سے رابطہ کیا اور ان سے ملاقات کی، جب ان سے سوال کیا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور مستقبل میں اس کے کیا اثرات سامنے آ سکتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ پوری دنیا میں پولیو وائرس ختم ہو چکا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان میں ابھی تک پولیو ختم نہیں ہو سکا تو کورونا وائرس کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ یہاں آج بھی پولیو کے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 2017ء میں پولیو کے صرف 8 کیسز رہ گئے تھے جو 2018ء میں بڑھ کر 12ہوگئے، 2019ء کے دوران ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 147تک جا پہنچی جن میں سے 93صرف خیبر پختونخوا میں سامنے آئے اور اب 2020ء کے پہلے 7ماہ میں پولیو وائرس کے 65کیس سامنے آ چکے ہیںجو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نمائندے نے انکشاف کیاکہ اس سال کے آخر یعنی نومبر اور دسمبر کے دوران دنیا بھر میں کورونا وائرس ایک نئی لہر آنے کا خدشہ ہے جو موجودہ وائرس کی لہر سے کئی گنا زیادہ شدید اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے کورونا وائرس کی جو قسم حملہ آور تھی اس سے لوگوں کو زیادہ تر ملیریا اور ٹائیفائیڈ قسم کا بخار ہو رہا تھا لیکن اب موسم سرما میں جو لہر آئے گی اس میں نمونیا جیسے کیسز زیادہ سامنے آ سکتے ہیں جو زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں لہٰذا قوم کو اب پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، ہمیں ایس او پیز پر مکمل عمل پیرا ہونا چاہئے۔ کسی بھی قسم کی کوتاہی خدا نخواستہ کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری تباہ حال معیشت طویل لاک ڈائون کی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن اپنی اور دوسروں کی قیمتی جانوں کی حفاظت کے لئے ہم ایس او پیز پر عمل پیرا تو ہو ہی سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح انسدادِ ڈینگی مہم مسلسل جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سرویلنس ہو رہی ہے اسی طرح انتظامیہ کووڈ 19 سے بچائو اور آئندہ اس وبا کا پھیلائو روکنے کے لئے ایس او پیز پر بھی عمل درآمد کرائے۔ تاجروں کو پابند کیا جائے کہ کاروباری مراکز میں سماجی فاصلہ، فیس ماسک اور سینی ٹائزر کے استعمال سمیت ایس او پیز پر عمل کیا جائے، اسی طرح سرکاری و نجی دفاتر میں جب تک ایس او پیز پر سو فیصد عملدرآمد نہیں ہوگا اس وقت لوگ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے کیونکہ ابتدا میں تو خوف و ہراس کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس نے لوگوں کو احتیاط پر مجبور کر دیا تھا لیکن اگر اب ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا تو خدا نخواستہ اگلی لہر خوفناک سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔