پاکستانی قوم نے وزیراعظم عمران خان کو ووٹ اس لئے نہیں دیے تھے کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کو ہی تنقید کا نشانہ بناتے رہیں، ہر غلطی و کوتاہی کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈال کو خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہیں، مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریبوں کو ماضی کے قصے سنا کر دلاسہ دیتے رہیں اور جب بھی عام آدمی اپنی فلاح و بہبود اور تبدیلی کے بارے بات کرے تواسے یہ بتایا جائے کہ ہم اپنے مخالفین کو جیل بھیجنے کے لئے کوشاں ہیں۔ قوم میں شعور والی بات تو ابھی زیادہ اعتماد سے نہیں کی جا سکتی کیونکہ اگر ہم اتنے ہی باشعور قوم ہوتے تو ستر برس بعد بھی کھوکھلے نعروں سے بے وقوف نہ بنتے لیکن میڈیا نے اتنا شعور ضرور اجاگر کر دیا ہے کہ اب شہریوں کو اقتدار کے پہلے چند ماہ تک تو طفل تسلیاں دی جا سکتی ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ پورا دورِ اقتدار آپ یہ کہہ کر گزار دیں کہ مہنگائی، بے روزگاری یا ظلم و زیادتی کی چکی میں رگڑا لگے تو ''گھبرانا نہیں‘‘۔
اس قوم میں اب اتنا شعور آ چکا ہے کہ جب بھی کوئی رگڑا لگتاہے تو یہ گھبرانے لگتی ہے، کم از کم ایک بار سوچتی ضرور ہے کہ حالات کب سدھریں گے، یہ مشکلات کب کم ہوں گی اور کب خوش حالی کا دور شروع ہو گا؟ لوگوں کو آج بھی پی ٹی آئی کے وہ تمام انتخابی نعرے یاد ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ سو دنوں میں حالات میں واضح بہتری نظر آئے گی، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا، ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی، ہر طرف میرٹ اور انصاف کا بول بالا ہوگا اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔ سو دن گزر گئے‘ ششماہی بیت گئی‘ سال بھی پورا ہو گیا بلکہ اب تو نصف کے قریب مدتِ اقتدار گزر چکی ہے کہ لیکن ابھی تک کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ اگر ماضی سے ہی موازنہ کرنا ہے تو کئی سابق حکومتوں کو تو اس سے بھی کم مدت کے لیے اقتدار نصیب ہوا اور ایسے ہی‘ حالات کی ابتری کو جواز بنا کر انہیں گھر بھیج دیا گیا۔
پی ٹی آئی حکومت دو سال پورے کرنے کے بعد اب موجودہ حالات کی ذمہ داری سابق حکمرانوں پر نہیں ڈال سکتی، موجودہ مہنگائی کی لہر کو آصف زرداری یا نواز شریف کی پالیسیوں سے نہیں جوڑا جا سکتا اور نہ ہی اب قوم سے حالات ٹھیک کرنے کے لئے مزید وقت مانگا جا سکتا ہے۔ اب ڈیلیور کرنے کا وقت ہے۔ اگر پی ٹی آئی کا موقف من و عن مان بھی لیا جائے کہ ملک میں پائے جانے والے تمام مسائل کی وجہ سابق حکومتوں کی نااہلی، غلط پالیسیاں اورکرپشن ہیں‘ تو بھی دو سال کا عرصہ ان خرابیوں کو سدھارنے کے حوالے سے بہت ہے، اور اب تک حالات سدھر جانے چاہیے تھے، اب تو مہنگائی کا گراف نیچے کی طرف آ جانا چاہئے تھا، آٹے اور چینی کے بحرانوں کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل جانا چاہئے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ حقیقت تلخ یہ ہے کہ شوگر مافیا کے خلاف اتنی انکوائریوں، تحقیقاتی رپورٹوں اور میڈیا ٹرائلز کے باوجود آج بھی چینی کی قیمت اوپر سے اوپر ہی جا رہی ہے، ایسے کمیشنز اور رپورٹوں کا عوام کو کیا فائدہ، ان تحقیقات کو عوام کے سامنے لانے سے کیا نکلا؟ سنتے تھے کہ شوگر مافیا میں شامل حکومتی و اپوزیشن رہنما‘ سب شکنجے میں آئیں گے اور سب کا بلاامتیاز احتساب ہوگا لیکن دیکھنے میں تو کچھ اور ہی آیا ہے۔ آج بھی شوگر مافیا آزادانہ گھوم پھر رہا اور قوم کاخون نچوڑ رہا ہے۔
ملک میں گندم کے ذخائر موجود ہونے کے باوجود آٹے کا بحران آیا تو عوام پریشانی کا شکار ہونے کے ساتھ حیران بھی ہوئے کہ موجودہ دورِ حکومت میں ایسے بحران کیوں پیدا ہو رہے ہیں لیکن اصل حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آج آٹے کا بحران غریب آدمی کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے اور مارکیٹ میں آٹا وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود کنٹرول ریٹ پر فروخت نہیں ہو رہا۔ ایک صوبائی وزیر کی یہ بات دل کو اچھی لگی کہ آٹے کا بحران مل کر ختم کرنا ہے۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ اپوزیشن پر بھی ذمہ داری عائد کر دی کہ بحران کے خاتمے میں مدد کریں۔ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ عوام کے مسائل اگر حکومت اور اپوزیشن مل کر حل کریں تو واقعی کوئی مسئلہ ہی باقی نہ رہے۔ ویسے بھی سب نے ووٹ تو عوام کے مسائل حل کرنے کے نام پر ہی حاصل کئے ہیں تو پھر کم از کم بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے اورعوام کو خوراک اور لباس کی فراہمی میں تو اتفاق پیدا کریں۔ معلوم نہیں کہ ایسا وقت کب آئے گی اور وہ کون سے حکومت یا اپوزیشن ہو گی جسے اپنے شہریوں کا بھی احساس ہو گا؟
اس قوم کا بوجھ وزیراعظم صاحب کے کندھوں پر ہے اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ دیگر قومی مجرموں کے خلاف بھی کارروائی کااختیار انہی کے پاس ہے، انہوں نے آٹا چوروں کے خلاف کارروائی کے لئے عوام کوجو خوشخبری دی تھی‘ اس پر اب عمل ہو جانا چاہئے، شوگر مافیا کی جو رپورٹ شائع کی گئی تھی اور مافیا کو جیل بھیجنے کا جو وعدہ قوم سے کیا تھا‘ اس کی بھی کم ازکم کوئی جھلک تو نظر آنی چاہئے، اگر ایسا ممکن نہیں یا کوئی مصلحت آڑے آ رہی ہے تو عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی جیل میں جاتا ہے یا کسی محل میں‘ عوام کو تو اس بات سے غرض ہے کہ چینی کو دوبارہ اصل قیمت پر لایا جائے۔
اسی طرح آئی پی پیز کے خلاف کارروائی کے بڑے دعوے سنے مگر ایک وفاقی وزیر نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ مافیا اتنا با اثر ہے کہ حکومت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی؛ تاہم ان سے مذاکرات کرکے بجلی کے نرخ کم کیے جائیں گے۔ ہمیں بھی یہی چاہئے کہ بجلی سستی ہو جائے اور وزیراعظم نے قوم کو خوش خبری بھی دی تھی کہ بجلی سستی کریں گے لیکن اس کے بعد بھی اس کی قیمت میں اضافہ ہی ہوا ہے جو مجھ ایسے ایک غیر سیاسی شہری کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آج آٹا، چینی، گھی، پھل اور سبزی سمیت تمام ضروری اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا گراف آسمان کو چھوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
جو سودا سلف پہلے پانچ چھ ہزار میں مل جاتا تھا، وہ اب سولہ ہزار میں بھی پورا نہیں آتا، صرف خوراک ہی نہیں بلکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بھی تقریباً تین سو فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے، جو سخت پریشان کن ہے۔ کورونا وائرس‘ جس نے پہلے بھی معیشت کو سخت دھچکا پہنچایا اور اب اس کی دوسری لہر کے شدید خطرات موجود ہیں، کہا جا رہا ہے کہ نومبر، دسمبر میں کورونا وائرس کی ایک نئی لہر متوقع ہے لہٰذا حکومت پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عام آدمی کو بھوک سے بچانے کے لئے مہنگائی کنٹرول کرے۔ اس کے لئے مافیاز سے مذاکرات یا اپیلیں کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ڈنڈا اٹھانا ہو گا، اب کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ڈنڈا تو پہلے ہی اپوزیشن کے سر پر برس رہا ہے بلکہ ہماری مراد مہنگائی کے خلاف کارروائی سے ہے۔ حکومت سیاسی مخالفین کوجیل میں ڈالے یا آزادانہ گھومنے دے‘ عوام کو اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ سے غرض ہے، عوام کو عزت سے دو وقت کی روٹی چاہئے، پہننے کے لئے چند گز کپڑا اور رہنے کے لئے ایک چھت‘ جو نہ صرف ہر شہری کا بنیادی حق ہے بلکہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔
عوام کو جمہوریت کے فوائد تو بہت بتائے جاتے ہیں لیکن کاش کوئی عوامی حکومت جنرل ضیاء الحق کے دور کی طرح مہنگائی کو لگام ڈالے‘ جس غریب کا بچہ رات کو بھوکا سوتا ہے‘ اسے جمہوریت اور آمریت کا فرق کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ ویسے اس بات سے تو کسی کو اختلاف نہیں کہ افواج پاکستان نے ملک کو ہمیشہ بحرانوں سے نکالا ہے اور مشکل وقت میں قوم کی مدد کی لیکن قوم امن و امان کے لئے تو پاک فوج سے مدد مانگ سکتی ہے مگر آٹا، چینی، گھی، پھلوں، سبزیوں اور ادویات کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لئے تو اپیل نہیں کر سکتی اور یہ کام منتخب حکومت اور وزیراعظم کے کرنے کا ہے۔ کوئی تو وزیراعظم صاحب کو بتائے کہ قوم مہنگائی سے گھبرا چکی ہے اور اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو حالات کسی بھی سمت جا سکتے ہیں لہٰذا جمہوریت کے لئے یہی بہتر ہے کہ غریب آدمی کو درپیش اصل مسائل پر توجہ دی جائے۔