کہتے ہیں کہ ہرچیز کی ایک حد ہوتی ہے، اچھی سے اچھی چیز یا اچھے سے اچھا کام بھی اپنی حد کے اندر ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے اور جب بھی حد پار ہونے لگے تو برداشت بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ ہمارا مذہب اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے جس کی تشریح میں جائیں تو مطلب حد میں رہنا ہی نکلتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کل وطن عزیز پاکستان کے حالات بھی غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہیں اور انتہا پسندی کی حدوں کو چھو رہے ہیں جو اچھے نتائج کے اشارے نہیں دے رہے۔ معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو ملک میں مہنگائی تمام حدیں عبور کر چکی ہے اور بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، کبھی آٹے کا بحران گندم کی قلت کی شکل میں سامنے آتا ہے اور کبھی آٹے کے تھیلے غائب ہو جاتے ہیں اور کبھی تو گندم سمگل ہوکر ناپید ہو جاتی ہے، غرض کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے بحران کا سامنا رہتا ہے اور اس کو جواز بنا کر من مانے نرخ وصول کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح چینی کا بحران دو سال سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور متعدد انکوائریوں اور کارروائیوں کے باوجود قیمت میں 120 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ گھی اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں‘ قصہ مختصر مہنگائی تاریخ کی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور ابھی اس کا سکیل اوپر کی جانب ہی رواں دواں ہے۔ دوسری جانب بیروزگاری کی بلند ترین شرح گویا حکمران جماعت کی جانب سے ایک کروڑ نوکریوں کے انتخابی وعدے کا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہمارے وہ سیاستدان جو کروڑ نوکریوں کے دعوے کرتے تھے‘ اب تنخواہوں کے پیسے نہ ہونے کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ ملازمین کو بھی فارغ کیا جا رہا ہے، یعنی بیروزگاری کا بحران سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے جو خدا نخواستہ لوٹ مار اور خانہ جنگی جیسے سنگین حالات کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری جانب کورونا وائرس سے ہر شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوئے‘ جہاں اس نے ملک میں تعلیمی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا اور ہزاروں طلبہ و طالبات کے قیمتی وقت کا ہرج ہوا،وہیں اس عالمی وبا کے باعث صحت کی سہولتیں بھی شدید متاثر ہوئیں اور کئی ماہ تک ہسپتالوں میں آئوٹ ڈور کے شعبے بند رہے، ترقیاتی کام التوا کا شکار ہوئے جبکہ کم ازکم چھ ماہ تک کھیلوں کے میدان بھی بند رہے جس کے منفی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور کھیل کے مواقع نہ ملنے سے نوجوان نسل منفی سرگرمیوں کی طرف مائل ہونا شروع ہوگئی ہے۔
یہ تمام مسائل اور بحران اپنی اپنی جگہ خطرناک اور انتہائی حد تک پریشان کن ہیں لیکن سب سے زیادہ پریشان کن بات ملک کو درپیش غیر مستحکم سیاسی صورتحال اور اس سے بھی بڑھ کر ہمارے سیاست دانوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ایسا لگتاہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف‘ دونوں کو صرف اپنی سیاست اور مفادات ہی عزیز ہیں اور ملک و قوم کی کسی کو فکر نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو سنیں تو جمہوریت کو درپیش خطرات کی بات کرتے کرتے مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت اور قومی اداروں کے خلاف اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ ایک غیر سیاسی شخص بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ہمارے سیاست دانوں کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟ دوسری جانب حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور حکومتی عہدیداران کی گفتگو بھی انتہا پسندانہ ہوتی ہے اور ان کی باتیں سن کر بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن سے یہی کچھ چاہتے ہیں‘ خواہ اس کے لئے کچھ بھی قربان کرنا پڑ جائے۔ ہمارے سیاستدانوں کا رویہ روز بروز غیر ذمہ دارانہ اور غیر جمہوری ہوتا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر الزامات جب حد پار کر گئے تو قومی اداروں پر تنقید شروع کر دی گئی جو کسی بھی طرح قومی مفاد میں نہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ہمارے رہنما اقتدار میں ہوتے ہیں تو جو چیزیں انہیں اچھی لگتی ہیں اور ان کے لئے قابل قبول ہوتی ہیں‘ وہ اپوزیشن میں غلط کیوں ہو جاتی ہیں؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج دنیا کی بہادر ترین اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی مالک ہے جس نے نہ صرف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری بخوبی سنبھال رکھی ہے بلکہ زلزلہ، سیلاب، دہشت گردی، تخریب کاری، قدرتی آفات اور دیگر سانحات میں ہر قسم کی امدادی سرگرمیوں سے لے کر اہم قومی و مذہبی ایام کے موقع پر امن و امان کی صورتحال کی ذمہ داری بھی اسی کے کاندھوں پر ہے۔ جب بھی حالات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں تو سویلین حکومت کے ساتھ عوام کی نظریں بھی پاک فوج کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور جب ہمارے محب وطن بہادر فوجی جوان سڑکوں پر نظر آتے ہیں تو عوام اطمینان کا سانس لیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے آج کل ہمارے سیاستدانوں نے ملک کے محافظوں کو بھی ہدف تنقید بنا رکھا ہے جو کسی بھی طور ملکی مفاد میں بہتر نہیں ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارے دشمن خوش ہو رہے ہیں بلکہ خدانخواستہ وہ اس آڑ میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے بھی سرگرم ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ض) کے سربراہ و سابق وفاقی وزیر محمد اعجاز الحق نے راولپنڈی میں استحکام پاکستان کانفرنس منعقد کی جس سے مختلف قومی سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج سمیت اہم قومی اداروں کے دفاع کا بیڑہ اٹھایا اور ملک کو اس خطرناک صورتحال سے بچانے کے لئے تحریک استحکام پاکستان شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ محب وطن قیادت کو اکٹھا کرکے ہرشہر میں جلسے کریں گے۔ استحکام پاکستان کو اس سطح پر لائیں گے کہ کسی کو افواجِ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی جرأت نہ ہو سکے۔ کانفرنس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کیلئے ڈھائی ارب روپے کی فنڈنگ کی گئی مگر علما کرام نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ اس کانفرنس میں سوال اٹھایا گیا کہ نواز شریف صاحب کا بیانیہ اُس وقت کہاں تھا جب وہ جنرل جیلانی کے گھر بیٹھے رہتے تھے اور جب جنرل ضیا الحق نے انہیں دعا دی تھی کہ آپ کو میری عمر بھی لگ جائے؟ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ میں کہتے تھے کہ دہشت گرد مارگلہ کی پہاڑیوں تک پہنچ چکے ہیں، ملکی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ جب فوج متحرک ہوئی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار شہدا نے قربانیاں دے کر امن قائم کیا تو اب انہی اداروں کے خلاف باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر ہے، ماضی کے وہ لیڈر جو ملک کے حوالے سے زہر افشانی کرتے تھے‘ آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔راولپنڈی میں منعقد ہونے والی استحکام پاکستان کانفرنس سے مولانا طاہر محمود اشرفی، سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان اور عبداللہ حمید گل سمیت دیگر شخصیات نے خطاب کیا اور دائیں بازو کی قیادت سے متحد ہوکر ملکی استحکام کیلئے مل کر چلنے کی اپیل کی۔ اس کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو وارننگ بھی دی گئی کہ اگر ملکی اداروں کے خلاف احتجاج کی بات کی گئی تو ایسے لیڈروں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا۔
گزشتہ روزدوسری استحکام پاکستان کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی اور مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان نے خطاب کرتے ہوئے قومی اداروں کے دفاع کا عہدکیا۔ اللہ کرے کہ استحکام پاکستان کیلئے قومی اداروں کے دفاع میں نکلنے والی یہ محب وطن لیڈرشپ سیاسی قیادت کو متحد کرنے اور راہِ راست پر لانے میں کامیاب ہو جائے ۔ اس وقت ہماری قومی سیاسی قیادت اور اداروں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تمام تر اختلافات کو بھلا کر اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور قومی اتحاد پر توجہ دی جائے کیونکہ پاکستان ہے تو سیاست بھی ہوتی رہے گی اور اقتدار بھی آتا رہے گا لیکن اگر خدانخواستہ ہم سیاسی اختلافات میں اسی طرح حدیں پار کرتے رہے اور ایک دوسرے پر تنقید میں قومی اداروں کونشانہ بناتے رہے تو اس کا نقصان سب کو بھگتنا پڑے گا۔