فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے تاجدارِ دو عالم آقا محمد مصطفیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی حمایت ناقابلِ معافی جرم ہے اور ایسے جرم پر جو معافی کے قابل بھی نہ ہو‘ مذمت سے کیسے اپنا فرض ادا کیا جا سکتا ہے؟ خدا بھی اپنے محبوبﷺ سے محبت کرنے اور ان پر درود و سلام بھیجنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی تودور‘ بے ادبی کو بھی گناہِ عظیم گردانا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو‘ (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو، (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (سورۃ الحجرات: آیت 2)۔ اسی طرح ایک جگہ فرمایا ''اے نبی! ہم ان لوگوں کے شر سے‘ جو آپ سے استہزا کرتے ہیں‘ بچانے کے لیے کافی ہیں‘‘ (سورۃ الحجر: آیت 95)۔
عالمِ اسلام میں فرانسیسی صدر کے بیان پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، ترک صدر رجب طیب اردوان نے صدر میکرون کو دماغی مریض قرار دیتے ہوئے معائنے اور علاج کروانے کا مشورہ دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ایسے بیانات کوئی عقل سے عاری اور فاتر العقل شخص ہی دے سکتا ہے‘ جسے دنیا کے دوسرے بڑے مذہب دین اسلام کے پیروکاروں کے شدید ردعمل کا احساس بھی نہیں۔ وقت بہت جلد ثابت کر دے گا کہ صدر میکرون واقعی فہم و دانش اور دور اندیشی جیسے بنیادی تقاضوں سے عاری ہیں۔ ایسے کم فہم فرانسیسی حکمران کو یہ بھی معلوم نہیں کہ دنیا کا ہر مسلمان اپنے آقا خاتم النبیینﷺ کی عزت و ناموس پر اپنی عزت، جان، مال، آبا و اجداد اور اپنی ساری نسلیں قربان کر سکتا ہے مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے نبیﷺ کی حرمت پر کوئی حرف برداشت نہیں کر سکتا۔
فرانس کی وجۂ شہرت اس کے پرفیوم ہیں جن سے ظاہری طور پر تو میل کچیل ماند پر جاتی ہے مگر اس طرح کے بیانات سے ان کی ذہنی گندگی نہیں چھپ سکتی اور انہوں نے اسلام دشمنی کی جو آگ بھڑکائی ہے‘ خود ہی اس کا ایندھن بن جائیں گے، ان کا غرور و تکبر بہت جلد خاک میں مل جائے گا کیونکہ دو عالم کے آقاﷺ کی حرمت کا تحفظ تو ارض و سما کرتے ہیں۔ فرانسیسی صدر کے توہین آمیز اور مسلم مخالف بیانات پر پوری اسلامی دنیا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر فرنچ مصنوعات کا بائیکاٹ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے، کویت میں فرانسیسی مصنوعات کو بازاروں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ قطر، او آئی سی اور خلیج تعاون کونسل کی جانب سے بھی سخت مذمتی بیان جاری ہوئے ہیں۔ ایرانی وزارتِ خارجہ نے فرانسیسی اقدامات کی سخت مذمت کی اور انہیں نفرت کا پرچار قرار دیا۔ فلسطین میں حماس سمیت مختلف تنظیموں نے اسلامی مقدسات کے دفاع کا عہد کیا، مصر میں جامعۃ الازھر کے مفتی اعظم شیخ ڈاکٹر احمد الطیب، لیبیا کی صدارتی کونسل کے چیئرمین، یمن کے وزیر مذہبی امور، اردن میں اخوان المسلین جبکہ شام کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے فرانسیسی صدر میکرون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ قطر اور تیونس کی متعدد کمپنیوں نے فرانسیسی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی معاہدے منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سوڈانی مسلمانوں نے صرف مذمت پر اکتفا کرنے کے بجائے فرانسیسیوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لئے شدید احتجاج کیا اور بعض اطلاعات کے مطابق فرانسیسی سفارت خانے کو نذرِ آتش بھی کیا گیا۔ دورانِ احتجاج سوڈانی مسلمان جس طرح کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اللہ اکبر اور یا رسول اللہﷺ کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے تھے، انہیں سن کر فرانسیسی صدر اور اس کے جاہل پیروکار تو کیا، قبروں میں پڑے ان کے اجداد بھی کانپ رہے ہوں گے۔ باقی عالمِ اسلام کی طرح وطن عزیز میں بھی عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے صاحبانِ سیاست کسی قدر لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں، ان کی جانب سے محض روایتی مذمتی بیانات جاری کئے گئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لیڈر کی پہچان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو متحد کرتا ہے، فرانسیسی صدر کو دنیا کو تقسیم کرنے کے بجائے معاملات کو حل کرنا چاہئے تھا۔ دنیا کو تقسیم کرنے سے انتہا پسندی مزید بڑھے گی۔ فرانسیسی صدر نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ دنیا کو تقسیم کرنے سے انتہا پسندی مزید بڑھے گی، توہین آمیز خاکوں کے ذریعے اسلام پر حملے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔اس کے علاوہ وزیراعظم نے فیس بک کے مالک مارک زکر برگ کو خط لکھ کر اسلام مخالف مواد پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔دفترِ خارجہ نے فرانسیسی سفیر کو طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔ فرانسیسی سفیر کے سامنے دو ٹوک موقف رکھا اور احتجاجی مراسلہ تھمایا۔ ایوانِ بالا (سینیٹ) میں بھی فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت کے خلاف مذمتی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جبکہ قومی اسمبلی کی قرارداد میں قرآن، صاحبِ قرآن کی توہین، اسلام مخالف بیانات، فرانسیسی صدر کے بیان اور حجاب کے استہزاکی بھی مذمت کی گئی۔
فرانسیسی صدر نے یہ ناپاک جسارت ایسے موقع پرکی ہے جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں امت مسلمہ عید میلاد النبیﷺ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور جشن آمد رسولؐ منا رہی ہے۔ بے شک اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور ہمارے آقاﷺ کی تعلیمات بھی ہمیں امن‘ محبت اور برداشت کا درس دیتی ہیں لیکن پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی ایسا قبیح فعل ہے جس کے تدارک کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فرانسیسی سفیر کو کم از کم علامتی طور پر ہی سہی‘ ملک بدر ضرور کرے‘ نیز فرانس کے ساتھ تمام تجارتی و دیگر معاہدوں کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور صدر میکرون کی اس ناپاک جسارت پر فرانسیسی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ عالم اسلام سے غیر مشروط معافی مانگے اور آئندہ اس قسم کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے کی یقین دہانی کرائے۔ محض مذمتی بیانات جاری کرنے کا کیا فائدہ؟
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے فرانسیسی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے، فرانسیسی اخبار کی ناپاک جسارت پر شدید احتجاج اور مذمت کی ہے، کبھی قرآن پاک کو شہید کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں، وزیراعظم نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھائی تھی،15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن کے طور پر طے کرنے کی تجویز دیں گے۔ کوئی انہیں بتائے کہ یہ واقعات اکتوبر 2020ء میں پیش آ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ مذمت مارچ 2021ء میں کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ حکومت بالخصوص دفتر خارجہ کو بلاتاخیر کوئی ٹھوس اقدام کرنا ہوں گے جس سے فرانسیسی صدر کو احساس ہو کہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔