وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے اعلان اور اپوزیشن کو دعوت دینے کی بات خوش آئند ضرور ہے مگر اب پاکستانی عوام سیاسی بیانات اور ہر دور میں حکمران جماعتوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے تجربات کی روشنی میں آسانی سے ہر بات پر یقین نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے طویل عرصہ تک صاف و شفاف انتخابات کیلئے جدوجہد کی مگر کامیابی نہ ملی، پھر 126دن تک وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دیا لیکن اس کے باوجود انہیں اقتدار میں آنے کیلئے بیس سال سے اپنے شانہ بشانہ کھڑے پاکستان تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں اور پارٹی رہنمائوں کو یکسر نظرانداز کر کے دوسری جماعتوں سے روایتی سیاستدانوں کو جمع کرنا پڑا۔آج مختلف ادوارِ حکومت میں دیگر سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والے ایسے ہی سیاستدانوں کے سہارے وہ حکومت کر رہے ہیں۔ آج حکومت میں شامل وزرا، ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹروں کی اکثریت ایسی ہے جنہوں نے ہر الیکشن میں کسی نئی جماعت اور مختلف انتخابی نشان کے تحت حصہ لیا، شاید اسی لئے آج عام آدمی کے لئے ایسی باتوں پر یقین کرنا آسان نہیں۔ قصور عوام کا بھی نہیں‘ یقین کریں تو کیسے کریں؟ وزیراعظم صاحب گزشتہ کئی ہفتوں سے کہہ رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کم ہو رہی ہے ، اشیائے ضروریہ سستی ہو رہی ہیں اور یہ کہ مہنگائی صرف اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے، لیکن آج تک پاکستانی عوام کو یہ پتا نہیں چل سکا کہ ملک کے کس کونے سے مہنگائی میں کمی شروع ہوئی ہے اور سستی اشیائے ضروریہ کہاں مل رہی ہیں؟ عام آدمی تو غیر سیاسی ہوتا ہے‘ اسے تو ہر وقت بچوں کی روزی روٹی کی فکر لاحق رہتی ہے، اس لئے وہصرف زمینی حقائق پر ہی اعتماد کرتا ہے اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک تو ہر چیز کے ریٹ اوپر سے اوپر ہی جا رہے ہیں لہٰذا حکمران اور اپوزیشن‘ دونوں جو مرضی کہتے رہیں‘ عام آدمی نے تو آٹا اور چینی گلی محلے کی دکان سے خریدنے ہیں اور وہی ریٹ ادا کرنا ہے جو کریانہ مرچنٹ بتائے گا۔ اسی طرح انتخابی اصلاحات کی بات ہر باشعور اور محب وطن شہری کے دل کی آواز ہے، ہر کوئی چاہتاہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں اور کسی بھی سطح پرمینڈیٹ چوری یا تبدیل نہ ہو سکے۔ وزیراعظم نے ملک میں انتخابی اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات کیلئے خفیہ ووٹنگ ختم کر کے شو آف ہینڈ (ہاتھ کھڑے کرکے ووٹ ڈالنے) کی آئینی ترمیم لانے کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے نیا انتخابی نظام لانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ خفیہ ووٹنگ ختم کرنے کی آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت چاہئے‘ اس لئے باقی جماعتیں بھی ہمارا ساتھ دیں۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ اگلا الیکشن ایسا ہو جو ہارے‘ وہ اپنی شکست کو دل و جان سے تسلیم کرے۔ بدقسمتی سے آج تک یہی ہوتا آیا ہے کہ جو بھی الیکشن ہارتا ہے‘ وہ حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگاتا ہے، دوسری طرف‘ جو جماعت اپوزیشن میں رہتے ہوئے انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کرتی ہے‘ وہ اقتدار میں آ کر ایسے اقدامات نہیں کرتی یا ایسی اصلاحات نہیں لاتی جن سے دھاندلی کا سدباب ہو سکے۔
آج اپوزیشن جماعتیں‘ خصوصاً سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے پر سیاست کر رہی ہے لیکن میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں‘ اس دوران انہوں نے ایسے اقدامات کیوں نہ کئے جن سے صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی ہوتا؟ ان کی جماعت آج مقتدرہ کے خلاف بات کرتے ہوئے بعض اوقات ایسی ایسی حدود کراس کر جاتی ہے کہ عام آدمی بھی اپنے ان لیڈروں کی بات سن کر شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ چاہئے تویہ تھاکہ جب پہلی بار نواز شریف اگر ''بیساکھیوں کے سہارے‘‘ وزیراعظم بن گئے تھے تو پھر ایسی اصلاحات کرتے کہ آئندہ کوئی بھی سیاستدان کسی غیر جمہوری طریقے سے منتخب نہ ہو پاتا لیکن اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں خدشہ تھا کہ شاید وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں، وہ دوسری بار دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بنے‘ تب بھی الیکشن کو شفاف بنانے کا خیال انہیں نہیں آیا، اب تو ان کی باتوں اور بیانیے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ تیسری بار بھی شفاف الیکشن جیت کر منتخب نہیں ہوئے کیونکہ انہی کی جماعت انتخابات میں مداخلت کا سب سے زیادہ رونا رو رہی ہے۔ آج ان کی صاحبزادی اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ سب جماعتیں لوٹوں کو خیرباد کہنے کی پالیسی اپنائیں۔ عوام تو شروع سے ہی یہ چاہتے ہیں اور یہی کہہ رہے ہیں لیکن غریبوں کی سنتا کون ہے؟ جہاں تک سیاستدانوں کی بات ہے تو پہلے بھی یہ دعویٰ کیا جاتا رہا، اس لیے عوام اب اتنی آسانی سے کسی سیاسی بیان پر یقین نہیں کر سکتے کیونکہ اپوزیشن میں جو کچھ کہا جاتا ہے اور جو بیانیہ اپنایا جاتا ہے‘ ساری جماعتیں اقتدار میں آ کر وہ سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ کوئی مریم نواز صاحبہ کو بتائے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لئے 'ہارس ٹریڈنگ‘ کا آغاز موجودہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی‘ نے ہی شروع کیا اور یہ دونوں جماعتیں کئی کئی ادوار ملک پر حکمرانی کر چکی ہیں۔ کوئی انہیں یاد کرائے کہ چھانگا مانگا کی سیاست کی ابتدا انہی کی جماعت نے کی تھی، لیکن چلیں مان لیتے ہیں کہ آج وہ انتخابی اصلاحات کے لئے مخلص ہیں‘ تو پھر اب انہیں وزیراعظم صاحب کے اعلان کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور جس ترمیم کے لئے وزیراعظم اپوزیشن سے دوتہائی اکثریت کے لئے مدد مانگ رہے ہیں‘ اس پر حکمران جماعت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ آئندہ ہمیشہ کے لئے دھاندلی کا راستہ روکا جا سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج تک پاکستان میں کوئی بھی الیکشن ایسا نہیں گزرا جس پر ہارنے والوں نے انگلی نہ اٹھائی ہو یا جسے سو فیصد صاف و شفاف قرار دیا جا سکے کیونکہ ملک میں روایت ایسی رہی ہے کہ یہاں اچھے و برے میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ یہی مسئلہ ماضی میں پی ٹی آئی کا رہا اور آج پی ڈی ایم اسی مسئلے کے لئے میدان میں ہے۔ اب سب کو مل کر ہی اس کا پائیدار حل نکالنا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان کو داد دینا چاہئے کہ انہوں نے اقتدار میں ہوتے ہوئے انتخابی اصلاحات کا سوچا‘ اعلان کیا اور اپوزیشن کو دعوت دی لیکن شاید یہ سب کچھ کافی نہیں! اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں اور اس کوعملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو محض اعلان کے بجائے اپوزیشن کو باقاعدہ دعوت دیں اور انہیں یقین دلائیں کہ مشترکہ اور متفقہ طور پر ایسی ٹھوس اصلاحات لائی جائیں گی جن سے واقعی انتخابی عمل شفاف بن سکے گا اور مستقبل میں کوئی انتخابی عمل پر اعتراضات نہیں کر سکے گا۔ ماضی میں کئی بار اصلاحات کی بات ہوئی لیکن جب بھی موقع آیا تو حکومتوں کی جانب سے اپوزیشن کی تمام تجاویز اور ترامیم کو رد کرکے نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا، اس لئے اب سب سے پہلے وزیراعظم صاحب اپوزیشن کو اعتماد میں لیں اور پھر یہ تاریخی کام انجام دیں۔ جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ کی بات ہے تو اس پر کئی طرح کے تحفظات موجود ہیں، 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کے وقت بھی آر ٹی ایس سسٹم جواب دے گیا تھا اور اس پر آج تک انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈ کے قانون سے پہلے سینیٹرز کے انتخاب کے طریقہ کار کو بہتر بنانا ہو گا کیونکہ موجودہ سسٹم میں تو زیادہ تر وہی سینیٹرز منتخب ہو پاتے ہیں جو یا تو پارٹی میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں یا پھر کروڑوں روپے خرچ کر سکتے ہیں‘ لہٰذا یہ سب کچھ نہ تو حکومت اکیلے کر سکتی ہے اور نہ ہی یہ اپوزیشن کے بس کی بات ہے، اس لئے اب موقع ہے کہ اس کام کو انجام تک پہنچایا جائے۔ وزیراعظم نے پہل کر دی ہے اب وہ ایک قدم مزید آگے بڑھیں اور اپوزیشن بھی سنجیدگی سے ان کا ساتھ دے تو سب کا بیانیہ درست ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا تو پھر آئندہ بھی وہی کچھ ہوگا‘ جو اب تک ہوتا چلا آ رہا ہے۔