کورونا وائرس کی شدت میں کوئی شبہ نہیں، عالمی وبا کی دوسری لہر پہلی سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور سرد موسم کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لہر کے دوران کووڈ 19 کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نیشنل کمانڈ آپریشن سنٹر (NCOC)کی جانب سے صرف گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا مریضوں اور ہلاکتوں کے حوالے سے جاری اعداد و شمارکا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ملک بھر میں2 ہزار731 افراد کے کووڈ ٹیسٹ مثبت آئے اور 105 افراد اس وائرس سے جاں بحق ہوئے‘ جن میں سے98 افراد ہسپتالوں میں جبکہ 7افراد گھروں میں قرنطینہ کے دوران جاں بحق ہوئے۔ واضح رہے کہ اب تک پاکستان بھر میں 9ہزار سے زائد افراد کورونا کا لقمہ بن چکے ہیں۔ دوسری جانب کورونا کے مریض بڑھنے سے ہسپتالوں بالخصوص وینٹی لیٹرز بھی دبائو کا شکار ہیں۔ ملک کے4بڑے شہروں میں کورونا مریضوں کے تناسب کے لحاظ سے ملتان میں48 فیصد، اسلام آباد میں46فیصد، لاہور میں 34 فیصد اور پشاور میں26فیصد مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں۔بلاشبہ یہ صورتِ حال انتہائی تشویشناک ہے اور بہت زیادہ احتیاط کی متقاضی ہے۔ یورپ کے بہت سے ممالک اب دوبارہ لاک ڈائون کر رہے ہیں، کچھ ممالک میں لاک ڈائون کا دورانیہ بڑھا دیا گیا ہے لیکن ہماری معیشت نہ تو مکمل لاک ڈائون کی متحمل ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہم ہمیشہ کے لئے اپنے تعلیمی ادارے بند رکھ سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران طویل عرصہ تک تعلیمی ادارے بند کرکے ہم نے پہلے ہی مستقبل کے معماروں کا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا ہے اور اب یہ بات اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے کہ آن لائن کلاسز بچوں کومصروف رکھنے اورکسی حد تک تعلیم دینے کا عارضی ذریعہ تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ سکول، کالج یا یونیورسٹی کی تدریس کامتبادل ہرگز نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اس جدید سائنسی دور میں بھی ہمارے 70 فیصد سے زائد طلبہ و طالبات انٹرنیٹ، موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر جیسی سہولت سے محروم ہیں لہٰذا آن لائن کلاسز جتنی بھی مؤثر ہو جائیں‘ ان سے زیادہ سے زیادہ تیس فیصد سٹوڈنٹس ہی مستفید ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں صرف کچھ بڑے نجی تعلیمی نیٹ ورک کے پاس ہی ایسا سسٹم ہے جس سے گروپ کے تمام طلبہ و طالبات آن لائن ایجوکیشن کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں اور جب کوئی آن لائن لیکچر جاری ہوتا ہے تو گروپ انتظامیہ کسی بھی جگہ سے لیکچر کو چیک کر سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اساتذہ طے شدہ ٹائم ٹیبل کے مطابق تمام کلاسز لیتے ہیں۔ دوسری جانب ملک کی کئی بڑی بڑی جامعات سمیت مختلف تعلیمی اداروں کا المیہ یہ ہے کہ کبھی ٹیچر کا نیٹ ورک خراب ہوتا ہے تو کبھی سٹوڈنٹس کا رابطہ نہیں ہو پاتا۔ آج کل مختلف یونیورسٹیوں کے آن لائن امتحانات بھی جاری ہیں لیکن پیپر کے دوران طلبہ کو کئی مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ ہوتا ہے تو کبھی انٹرنیٹ کا رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور اگرنیٹ سسٹم بالکل صحیح چل رہا ہو تو بجلی کی بندش سے سٹوڈنٹس کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ آن لائن کلاسز میں ذہین بچے تو دلچسپی اور توجہ سے پڑھتے ہیں لیکن متوسط اور کمزور بچے صحیح طریقے سے اس تعلیمی عمل سے مستفید نہیں ہو پاتے لہٰذا ہمیں بہر صورت گیارہ جنوری کے بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنا ہوں گی تاکہ بچوں کا مزید وقت ضائع نہ ہو۔
دوسری جانب یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ کورونا کی حالیہ لہر کے دوران ہمیں قوم کے نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے بھی محفوظ رکھنا ہے کیونکہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران جب تعلیمی ادارے بند ہوئے تھے اور کھیلوں کی سرگرمیاں بھی مکمل بند کر دی گئی تھیں تو نوجوان نسل کا منفی سرگرمیوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا تھا۔اس دوران سٹریٹ کرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا، لڑائی جھگڑے کے زیادہ واقعات رونما ہوئے، تشدد اور زیادتی کے کیسز میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ مکمل لاک ڈائون کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ نوجوانوں نے مثبت سرگرمیاں چھوڑ کر ٹک ٹاک، موٹر سائیکلنگ، ون ویلنگ، آوارہ گردی اور دیگر غیرضروری کاموں کی جانب توجہ مبذول کر لی۔ اگر اس وقت کھیل کے میدان آباد رکھنے کے لئے مؤثر ایس او پیز تیار کیے جاتے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کر کے کھیل کے میدان کھلے اور مقابلے جاری رکھے جاتے تو نئی نسل کو منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔ جب لاک ڈائون ختم ہوا اور ایس او پیز کے تحت ملک بھر میں کھیلوں کی اجازت دے دی گئی تو بہت ساری منفی سرگرمیاں خودبخود کم اور محدود ہوتی چلی گئیں۔ ملک میں ٹک ٹاک کا جنون بھی کم ہوتا گیا، لڑائی جھگڑے کی شکایات بھی کم ہو گئیں اور جرائم کی شرح میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی۔ اس دوران قومی سطح پر نیشنل ٹی ٹونٹی کرکٹ، قائداعظم ٹرافی اور پاکستان سپرلیگ کے بقیہ میچز کا کامیاب انعقاد بھی ہوا، زمبابوے کرکٹ ٹیم نے بھی کامیابی سے پاکستان کا دورہ مکمل کیا اور اس وقت پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے جبکہ ملک کے اندر بھی کرکٹ سمیت مختلف کھیلوں کی سرگرمیاں کامیابی سے جاری ہیں لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ بعض افسران کورونا کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عالمی وبا کا بہانہ بنا کر نوجوان نسل کو دوبارہ مثبت سرگرمیوں سے محروم رکھنے کے کوشاں ہیں حالانکہ حکومت کی جانب سے واضح نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ ایسے تمام کھیل‘ جن میں براہ راست جسم کو چھوا نہیں جاتا‘ یعنی نان کنٹیکٹ گیمز اور لو کنٹیکٹ گیمز مثلاً بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، کرکٹ، بیس بال، اتھلیٹس وغیرہ‘ کی اجازت ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں فٹ بال میچز بھی کامیابی سے جاری ہیں جبکہ ملک میں کھیلوں کی ٹریننگ کی بھی اجازت ہے مگر بعض افسران اپنے فرائض کی انجام دہی اور ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے حکومتی احکامات پس پشت ڈال رہے ہیں اور کورونا وائرس کی آڑ لے کر نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ جو افسوسناک رویہ ہے۔
راولپنڈی میں گزشتہ دنوں کامیاب میراتھن ریس کا انعقاد کیا گیا جس کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی سراہا جبکہ لاہور اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں اس وقت ڈویژنل اورضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام مختلف کھیلوں کے مقابلے جاری ہیں جن میں نوجوان مرد و خواتین کھلاڑی بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے لیکن ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک ایسا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں کلچرل اور سپورٹس ایونٹس سے منع کیا گیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن میں یہ ابہام موجود ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے دیگر جامع احکامات کی طرح اس میں تفصیل نہیں دی گئی کہ کون کون سے کھیل ہو سکتے ہیں اورکون کون سے نہیں ہو سکتے یا کن ایونٹس کا انعقاد کیا جا سکتاہے اور کس قسم کے ایونٹس نہیں ہو سکتے۔ اسی سبب صوبے کے بعض اضلاع میں کورونا ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے بھرپور مثبت سرگرمیاں جاری ہیں جبکہ بعض افسران اس نوٹیفکیشن کی آڑ میں ''ایک چپ سو سکھ‘‘ کے فارمولے کے تحت دفاتر میں آرام سے بیٹھے ہیں اور انہیں اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ اگر نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں سے دور رکھاگیا تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ پنجاب حکومت کوچاہئے کہ صوبے میں ایس اوپیز کے تحت کھیلوں کی سرگرمیوں کے لئے واضح احکامات جاری کرے۔