یہ اگست 2008ء کی ایک شب تھی جب فون پر اطلاع ملی کہ چھوٹا بھائی ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوگیا ہے۔ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا اسے ریسکیو 1122 کی امدادی ٹیم نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔ مجھے یہ اطلاع دفتر میں ملی، پہلے تو اوسان خطا ہو گئے مگر پھر مسعود ملک صاحب (مرحوم) نے حوصلہ دیا اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال لے گئے‘ جہاں بھائی تشویشناک حالت میں زیر علاج تھا؛ تاہم بروقت ہسپتال منتقل ہونے اور علاج جلد شروع ہو جانے سے اللہ پاک نے میرے بھائی کو نئی زندگی بخش دی۔ اس روز مجھے دو سبق ملے۔ اس واقعہ سے قبل میں دفتر سے گھر پہنچ کر موبائل فون بند کر دیا کرتا تھا تا کہ کوئی ڈسٹرب نہ کر سکے، لیکن اس واقعہ کے بعد کسی مجبوری کے سوا کبھی موبائل فون آف نہیں کیا تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی اطلاع فوری مل سکے۔ دوسرا سبق یہ ملا کہ ہمیشہ ایمبولینس کو فوری راستہ دینا چاہئے کیونکہ یہ قیمتی انسانی جان بچانے کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی ایمبولینس راستے میں پھنس گئی اور بروقت ہسپتال نہ پہنچ سکی تو خدا نخواستہ کوئی قیمتی انسانی جان ضائع ہو سکتی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ جب بھی کہیں ایمبولینس کی آواز سنتا ہوں تو فوراً سڑک خالی کر دیتا ہوں تاکہ وہ بلارکاوٹ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی تک ایمبولینس کو ترجیحی بنیاد پر راستہ دینے کا رواج عام نہیں ہوا جو بحیثیت معاشرہ ہماری بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس رویے کو جاہلیت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے اور جس میں انسانیت کا درد نہیں اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ انسان کو ان باتوں کی سمجھ تب آتی ہے جب وہ خود ایسی کیفیت سے گزرے یا اپنے کسی عزیز کو ہنگامی حالت میں ہسپتال لے کر جا رہا ہو اور راستے میں ٹریفک جام ہو جائے، کسی منچلے کی گاڑی ایمبولینس کے آگے لگ جائے اور وہ راستہ نہ دے، سڑک پر کوئی احتجاجی مظاہرہ ہو رہا ہو اور منتظمین کی ہٹ دھرمی ایمبولینس کو بھی نہ گزرنے دے یا پھر متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے دن کے اوقات میں ٹرک یا دیگر ہیوی ٹریفک شہر میں داخل ہوکر راستے بلاک کردے (جیسا کہ اکثر ہوتا رہتا ہے)۔ ایسے اوقات میں انسان خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہے، اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لئے انہیں جلد سے جلد ہسپتال پہنچانا چاہتا ہے لیکن حالات اس کے قابو میں نہیں ہوتے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ ایمبولینس کو ترجیحی بنیاد پر راستہ دینا اور ہنگامی حالات میں کسی زخمی یا مریض کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ کئی افراد حادثات کے بعد راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں، ایسے واقعات آئے روز ہمارے ملک میں پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے بحیثیت قوم سبق نہیں سیکھا اور ایمبولینس کو راستہ دینے کا اصول نہیں اپنایا۔ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں کے علاوہ بھی ہمیں انسانیت کا احساس کرنا چاہئے اور نہ صرف ہمیشہ ایمبولینس کو فوری راستہ دینا چاہئے بلکہ اگر کہیں کوئی حادثہ پیش آ جائے یا کوئی اچانک بیمار ہو جائے تو اسے اپنی گاڑی میں یا کسی بھی ذریعے سے جلد از جلد قریبی ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس پہنچانے میں بھرپور مدد فراہم کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے بھی ایک بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات کسی حادثے کی صورت میں لوگ محض تماشا دیکھنے کے لئے غیرضروری رش قائم کر لیتے ہیں جس سے زخمیوں کی مدد کے بجائے مزید رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ایمبولینس کاراستہ بھی بند ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ٹریفک جام ہونے سے مزید حادثات کے خدشات بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ہنگامی حالات میں زخمیوں یا متاثرین کی مدد کرنا اگرچہ فرض ہے لیکن غیر ضروری ہجوم سے مزید مشکلات پیدا کرنا قطعاً درست نہیں۔
لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی تربیت بھی کرنی ہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی ایمبولینس ٹریفک میں پھنس جائے یا کسی چوراہے کے اشارے پر جتنا مرضی سائرن بجاتی رہے، ٹریفک پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی ؛ اگرچہ سب اہلکار ایسے نہیں ہوتے اور کچھ افراد ترجیحی بنیادوں پر ایمبولینس کو راستہ فراہم کرتے ہیں مگر اس حوالے سے ٹریفک پولیس میں ملک گیر آگاہی مہم شروع کرنی چاہئے تاکہ لوگوں میں بھی اس اہم مسئلے کو اجاگر کیا جا سکے اور قومی شعور بیدار ہو سکے۔ لوگوں کو بتانا چاہئے کہ سڑک پر سب سے دائیں طرف کی فاسٹ لین ہمیشہ خالی رکھنی چاہئے اور اوور ٹیک کرنے کے بعد وسطی یا بائیں لین میں آ جانا چاہئے تاکہ ٹریفک کی رفتار میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اور حادثات سے بھی بچا جا سکے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا سے پہلے بھی کم از کم ایک لیکچر کا اہتمام ضروری کیا جائے جس میں اس قسم کی ضروری ہدایات سے آگاہ کیا جائے۔پاکستان میں ٹریفک جام کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم سنگل سڑک پر بھی تیزی کی خاطر ڈبل لین بنا کر غیر ضروری اوور ٹیک کرتے چلے جاتے ہیں، جس شاہراہ پر ٹریفک دو یا تین لین ہو‘ وہاں اکثر پانچ یا چھ لین بنا لیتے ہیں حالانکہ اس سے ٹریفک بہائو میں مزید سست روی واقع ہوتی ہے، رفتار میں کم از کم پچاس فیصد تک کمی آ جاتی ہے، ٹریفک جام ہو جاتی ہے ، حادثات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ایمبولینسیں اور سکول بسیں بھی ٹریفک میں پھنس جاتی ہیں۔ تیزرفتاری کے چکر میں ہم دوسروں کا راستہ بھی روک لیتے ہیں اور جلد پہنچنے کے بجائے راستے میں ہی پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ ٹریفک کے حوالے سے لین کی پابندی ازحد ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں موٹروے سمیت اہم شاہراہوں پر ایسے سائن بورڈز تونصب کردیے گئے ہیں جن پر بتایا گیا ہے کہ چھوٹی گاڑیاں کس لین میں رہیں گی اور بس و ٹرک کس لین میں چلیں گے لیکن اس پر عمل درآمد خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ بس یا ٹرک کو چھوڑیں‘ اکثر انتہائی سست رفتار ٹریکٹر ٹرالیاں بھی انتہائی دائیں لین میں چل رہی ہوتی ہیں جن پر لائٹ تو کیا ہارن بھی اثر نہیں کرتا اور اپنی موج مستی میں گم وہ ساری ٹریفک میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔
مہذب معاشروں میں ایمبولینس کی طرح سکول بس کو بھی ترجیحی بنیاد پر راستہ دیا جاتا ہے تاکہ بچے بروقت سکول یا گھر پہنچ سکیں اور والدین پریشان نہ ہوں، ہم تو ایک اسلامی معاشرے کے باسی ہیں‘ پھر ان چھوٹی چھوٹی باتوں‘ جو انتہائی ضروری اور اہم ہیں‘ پر عمل کرنا کب سیکھیں گے؟ ہمارا دین تو سب سے پہلے انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے، دوسروں کی مدد کرنے اور دکھ درد بانٹنے کا سبق سکھاتا ہے، پھر ہم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے بڑی نیکیاں کمانے میں پیچھے کیوں ہیں؟طلبہ و طالبات کو ٹریفک قوانین، سڑک پر پیدل چلنے، سڑک پار کرنے، گاڑی میں سوار ہونے اور اترنے اور ایمبولینس کو راستہ دینے سمیت بنیادی اصولوں سے آگاہی فراہم کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ مذکورہ موضوعات پر مبنی مضامین نصاب میں شامل کیے جائیں، ٹریفک پولیس تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز کے ذریعے بچوں میں آگہی پیدا کرے اور تعلیم کے ساتھ ان کی سماجی و اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ بڑے ہو کر ایک باشعور اور مہذب معاشرے کی بنیاد بن سکیں۔ ایمبولینس کے لئے الگ لین کا قیام تو ممکن نہیں لیکن ہم اسے فوری راستہ دے کر قیمتی انسانی جان بچانے میں اپنا حصہ تو ڈال ہی سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ جونہی کسی ایمبولینس کے سائرن کی آواز کانوں میں پڑے تو اپنی لین سے بائیں جانب ہوکر اسے فوراً راستہ فراہم کرنے کی کوشش کریں‘ خواہ اس کے لئے ہمیں گاڑی سڑک کنارے روکنی ہی کیوں نہ پڑ جائے۔ آج اگر ہم دوسروں کی جان بچائیں گے توکل کو کوئی ہماری بھی مدد کرے گا، اور اللہ کے ہاں نیکی کا اجر تو ضرور مل کر رہے گا۔ آئیے! عہد کیجئے کہ ہم ہمیشہ ایمبولینس کو ترجیحی بنیاد پر راستہ دیں گے اور انسانیت کو بچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔