پنڈی سٹیڈیم سے اپنا ایکریڈیشن کارڈ وصول کرکے باہر نکلا تو گیٹ پر موجود ایک سکیورٹی گارڈ نے روک لیا، کہنے لگا: سر جی! خدا کے لئے کچھ کریں، ہم تو ڈبل ڈیوٹی کر کر کے مر گئے ہیں لیکن پھر بھی دو وقت کی روٹی پوری نہیں پڑتی۔ اس کے لب و لہجے سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کافی پریشان ہے، میں نے پوچھا: بھائی خیریت ہے؟ کیا مسئلہ ہے، آپ کیوں پریشان ہو؟ کہنے لگا: میری تنخواہ 17ہزار روپے ہے، تین بچے ہیں، تینوں سکول میں پڑھتے ہیں، آٹھ ہزار روپے مکان کا کرایہ ہے، تین ہزار روپے بچوں کی سکول فیس ہے، پندرہ سو روپے مزید ان کے تعلیمی اخراجات میں لگ جاتے ہیں، ہمارا گیس کا بل جو پہلے کبھی دو سو روپے سے زیادہ نہیں آیا تھا‘ اس بار 1370 روپے آیا ہے جو بروقت ادا نہیں کر سکا اور اب جرمانہ سمیت پندرہ سو روپے بل ادا کرنا پڑے گا، گھر میں ایک پنکھا ہے اور وہ بھی آج کل بند ہے اور صرف چند گھنٹے ایک لائٹ جلتی ہے، اس کے باوجود بجلی کا بل ہزاروں میں آ رہا ہے، پہلے موٹر سائیکل میں سو روپے کا پیٹرول ڈلواتا تھا تو تین دن ڈیوٹی پر آنا جانا ہو جاتا تھا لیکن اب روز سو روپے پیٹرول پر لگ جاتے ہیں، آپ ہی بتائیں کہ تنخواہ تو انہی چیزوں میں کم پڑ جاتی ہے تو بیوی‘ بچوں کو روٹی کہاں سے کھلائوں؟ مضبوط جسم اور اعصاب کے باوجود اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی، ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا: یہ بڑے سیاسی لوگ صرف میڈیا کی بات ہی سنتے ہیں، خدا کیلئے مہنگائی کے بارے میں بات کریں اور حکومت کو بتائیں کہ غریب کا گزارہ بہت مشکل ہو چکا ہے۔
میں وہاں سے نکلا تو صدر کے علاقے میں حکمران جماعت کے ایک ''ٹائیگر‘‘ سے ملاقات ہو گئی، دعا سلام کے بعد میں نے حال پوچھا توکہنے لگا: ہم نے تو پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلائی اور اسے ووٹ دیے، ہم تو بول نہیں سکتے لیکن آپ تو لکھ سکتے ہیں‘ براہِ مہربانی مہنگائی کے بارے میں لکھیں تاکہ ہماری پارٹی کو کچھ ہوش آئے، پارٹی کے نظریاتی کارکنان سخت پریشان اور مایوس ہیں، اس وقت تمام چھاتہ برداروں کا ہولڈ ہے جنہوں نے پانچ سال بعد ہوائوں کا رخ دیکھتے ہوئے وفاداری بدل کر کسی دوسری پارٹی کا ٹکٹ لے لینا ہے لیکن نقصان تو ہمارا اور پارٹی کا ہو گا۔ وہ بتانے لگا کہ اب تو میری فیملی بھی 'تبدیلی‘ کا مذاق اڑانے لگی ہے، ہم آج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں لیکن مہنگائی کے باعث قوم گھبرا چکی ہے، اب تو حکومت کا نصف وقت گزر چکا ہے‘ کب تک ہم دوسروں پر الزام تراشی کریں گے؟
وہ ابھی مزید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ ساتھ کھڑا اس کا بیٹا بولا: انکل حکومت نے 32 دنوں میں تیسری بار پٹرول مہنگا کیا ہے، یہ شاید عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں، مہینے میں دو بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12، 13 روپے اضافے کی سمری تیار کرتے ہیں اور پھر تین روپے فی لیٹر اضافہ کرکے قوم پر احسان جتاتے ہیں کہ ہمیں قوم کا بڑا احساس ہے اور ہم نے تیرہ روپے کے بجائے صرف تین روپے اضافہ کیا ہے۔ ہر مہینے پیٹرول کی قیمت میں پانچ سے سات روپے فی لیٹر کا اضافہ ہو رہا ہے، بجلی ہے تو وہ مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہے، گیس کی قیمتیں کئی بار بڑھائی جا چکی ہیں، اب تو ہم نے اپنے گھر کی چھت سے پارٹی پرچم بھی اتار کر الماری میں رکھ دیا ہے کیونکہ حکومت کے ساتھ ہمیں بھی طعنے سننے کو ملتے ہیں۔
حکمران جماعت کے حامی ان لوگوں کی باتیں سن کر سوچوں میں گم میں ایک ریسٹورنٹ پر چائے پینے کے لئے بیٹھا تو ٹیلی وژن پر پہلی خبر وہی سننے کو ملی جس کا دن بھر تذکرہ ہوتا رہا۔ خبر تھی ''تحریک انصاف کی حکومت نے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گراتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پھر اضافہ کر دیا، پٹرول کی قیمت میں 2 روپے 70 پیسے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا ہے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے 88 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ آئل اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی طرف سے پیٹرول کی قیمت میں 13.18 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کی سمری بھیجی گئی تھی؛ تاہم وزیراعظم نے اوگرا کی جانب سے بھیجی گئی مجوزہ سفارشات کے برعکس عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم سے کم اضافے کی منظوری دی۔ وزیراعظم نے عوامی مفاد کے پیشِ نظر پیٹرول کی قیمت میں صرف 2.70 روپے فی لیٹر، ہائی سپیڈ ڈیزل میں 2.88 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت میں 3.54 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے فی لیٹر کا اضافہ کرنے کی اجازت دی۔ خیال رہے کہ یکم جنوری سے اب تک پٹرول 8 روپے21 پیسے مہنگا ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ دو ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات 16 روپے37 پیسے تک فی لیٹر مہنگی ہو چکی ہیں۔ پیٹرول11 روپے21 پیسے، ہائی سپیڈ ڈیزل 14 روپے 64 پیسے، لائٹ ڈیزل 16 روپے 37 پیسے اور مٹی کا تیل 14 روپے 90 پیسے فی لیٹر مہنگا ہوا ہے‘‘۔ دوسری خبر بھی کچھ ایسی ہی تھی ''نیپرا بجلی مہنگی کرنے کیلئے وفاقی حکومت کی درخواست پر 4 فروری کو عوامی سماعت کرے گی۔ اتھارٹی کے فیصلے کے بعد پاور ڈویژن بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔ پاور ڈویژن نے بجلی ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست گزشتہ ہفتے نیپرا کو ارسال کی تھی۔ وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی سمری سرکولیشن کے ذریعے منظور کی تھی اور وفاقی وزیر توانائی نے21 جنوری کو باضابطہ طور پر بجلی مہنگی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نیپرا کی جانب سے منظوری کے بعد عوام پر 200 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا‘‘۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے مہنگائی کنٹرول کرنے کے بڑے بڑے دعوے سامنے آ رہے ہیں حالانکہ اگر اس ضمن میں عملی اقدات کا جائزہ لیا جائے تو اس معاملے میں قول و فعل کا تضاد واضح نظر آتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف بی آر نے ملکی صنعتوں کو تحفظ دینے کے لئے سینکڑوں اشیا کی درآمد پر 2، 4 اور7 فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔ وہ اشیا جن کی درآمد پر 3 فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد ہے‘ اب ان کی درآمد پر 2 فیصد اضافی کسٹمز ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ وہ اشیا جن کی درآمد پر 11 سے 16 فیصد تک کسٹمز ڈیوٹی عائد ہے ان کی درآمد پر 4 فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی عائد کی جائے گی، 20 فیصد کسٹمز ڈیوٹی والی اشیا کی درآمد پر 7 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے اور روپے کی قدر میں روز بروز کمی، کورونا وائرس کی تباہ کاریوں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور عوام کی قوتِ خرید متاثر ہونے سے ملکی صنعت تو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں اور زیادہ تر کارخانے بند پڑے ہیں، ان حالات میں اگر حکومت درآمدی اشیا پر عائد ڈیوٹی میں اضافہ کر رہی ہے تو اس سے مہنگائی کی شرح نیچے آئے گی یا مزید بڑھے گی؟
شاید حکومت اس بات سے بے خبر ہے کہ اب عوام باشعور ہیں اور ہر پندرہ یوم بعد تیرہ روپے کی سمری تیار کرکے تین سے چار روپے فی لیٹر پیٹرولیم مصنوعات مہنگا کر کے اب لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ بجلی اورگیس کی قیمتوں میں بھی بار بار اضافے سے مہنگائی کا گراف اوپر سے اوپر ہی جا رہا ہے، اب قوم گھبرا چکی ہے، اب دعووں اور نعروں کے بجائے عوام کو حقیقی ریلیف دینا ہوگا۔ یہ سب کچھ الفاظ کے گورکھ دھندے سے نہیں ممکن بلکہ اس کے لیے پٹرول، بجلی، گیس اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں اور بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کرنا ضروری ہے۔