ہمارے ہاں جب بھی انتقالِ اقتدار کامرحلہ مکمل ہوتاہے اورنئی حکومت معرضِ وجود میں آتی ہے تو اربابِ اختیار سب سے پہلے من پسند افراد کو پرکشش آسامیوں پر بٹھانے، اپنے بندوں کو نفع بخش ٹھیکے دینے، اپنی مراعات میں سو گنا اضافے، مخالفین کو کچلنے، قیمتی جائیدادوں پر قبضے، اپنے بچوں کو اندرون یابیرون ملک سیٹ کرنے، پرآسائش گھر اورجدید ترین گاڑی کے حصول، ہر جائز وناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے، حریفوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے حتیٰ کہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کیلئے مرضی کی قانون سازی میں بھی لگ جاتے ہیں چاہے اس سے ملک وقوم کاکتنا ہی نقصان ہو لیکن 'صاحب‘ صرف اپنا فائدہ ہی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے مفادات کے حصول اورتحفظ کیلئے ان کا پہلا قدم سابقین یعنی اپنے سے پہلے اس نشست پر براجمان شخصیت کی خامیاں تلاش کرنا، ان کیلئے گواہ ڈھونڈنا، تشہیر کرنا اوراس کے بعد انہی خامیوں کوجواز بنا کر سابقین یا مخالفین پر الزام تراشی،کردار کشی اورپھر احتساب کے نام پر انہیں رگڑا لگانا ہوتا ہے۔ اسی طرح ساتھ اپنا اُلو سیدھا کیاجاتا ہے ۔ پہلے کیاہوتا تھا مگر جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تو یہی کچھ دیکھا، کسی کو قانون شکنی اورکسی کوکرپشن کے نام پر احتساب کے شکنجے میں جکڑا گیا۔ جنرل ضیا الحق نے نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کاخاتمہ کیابلکہ انہیں تختہ دار پر بھی لٹکا دیا گیا ، میاں نوازشریف وزیراعظم بنے تو ہم نے سیف الرحمن کا احتساب بھی دیکھا جس میں سیاسی مخالفین خصوصاً پیپلزپارٹی قیادت کے خلاف چن چن کر مقدمات بنائے گئے، اس دور میں میڈیا کو بھی قابو کرنے کیلئے کوششیں کی گئیں، نوازشریف اور بینظیربھٹو کی منتخب حکومتوں کو 58ٹو ۔بی کانشانہ بنایاگیا، پھر پرویزمشرف نے اقتدار سنبھالا تو نوازشریف فیملی کو جلاوطنی کابھی سامنا کرناپڑا۔ انہی دنوں بینظیربھٹو بھی بیرون ملک تھیں، بینظیر صاحبہ اورمیاں صاحب نے سیاسی انتقام سے بچنے اور جمہوریت کے استحکام کیلئے ''میثاق جمہوریت‘‘پر دستخط کیے، اگرچہ بی بی صاحبہ کی شہادت کے بعد اس معاہدے پرروح کے مطابق عمل تونہ ہوسکا مگر اتنا اثر ضرور رہاکہ پہلے نوازشریف نے زرداری حکومت کو مدت مکمل کرنے کاموقع دیا اورپھر پیپلزپارٹی نے لیگی حکومت کوپانچ سال پورے کرائے، تاہم اس عرصہ میں پی ٹی آئی نے خود کوملک کی تیسری سیاسی قوت کے طور پر منوالیا اور 2018ء کے عام انتخابات میں تبدیلی کانعرہ لگا کر حکومت بھی بنالی۔
بات احتساب اورسیاسی انتقام کی ہورہی تھی، ہم نے تو آج تک کوئی بھی ایسی حکومت نہیں دیکھی جس نے اپنے مخالفین کو حتی الوسع رگڑا نہ لگایاہو، سیاسی انتقام نہ لیاہو، مخالفین کو جیلوں میں نہ ڈالا ہو اور آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم لا کر ذاتی مفادات کاتحفظ نہ کیاہو۔ ملک وقوم کی ترقی وخوش حالی کی بات توہرکوئی کرتا ہے لیکن عملی طور پر اس کامظاہرہ کم ہی دیکھنے کوملتاہے۔ ہم نے تویہ بھی دیکھا کہ کسی حکومت نے عوامی فلاح وبہبود کاکوئی منصوبہ شروع کیا تو اس کے بعد آنے والی حکومت نے محض اس بنیاد پر اس میگا پراجیکٹ کے فنڈز روک لئے کہ اس کاکریڈٹ تو سابق حکومت لے جائے گی۔ راولپنڈی میں ماں اوربچہ ہسپتال اور شیخ رشیدایکسپریس وے اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ماں بچہ ہسپتال جڑواں شہروں کی آبادی کیلئے ایک عظیم منصوبہ تھا جو موجودہ وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشیداحمد نے پرویزمشرف دور میں وفاقی حکومت سے فنڈز لے کر شروع کرایاتھا ، نصف سے زائد تعمیراتی کام مکمل ہونے کے باوجود بعد میں اس کاکام مکمل بند کردیا گیا۔ اسی طرح راولپنڈی صدر کے علاقے میں ایک ویمن کالج بھی محض اس بنیاد پر روک دیاگیاکہ اس کاکریڈٹ بھی شیخ رشید احمد لے جائے گا۔ راولپنڈی شہر کوسیلاب سے بچانے اورشہر کاسب سے بڑا ٹریفک کامسئلہ حل کرنے کیلئے نالہ لئی کے اطراف میں ایکسپریس وے پراجیکٹ ایک ایسا منصوبہ ہے جو واقعی شہر یوں کیلئے بے حد مفید ہے ، سابق صدر پرویزمشرف نے اس میگاپراجیکٹ کاسنگ بنیاد رکھا تو انہوں نے راولپنڈی شہر کیلئے شیخ صاحب کی خدمات کے اعتراف میں اس کانام 'شیخ رشید ایکسپریس وے‘ رکھ دیا، اس وقت اس منصوبے کاتخمینہ لاگت صرف چند ارب روپے تھا اوراگر یہ مکمل ہوجاتا تو جڑواں شہروں کے درمیان ٹریفک کے مسئلے سمیت کئی دیگر مسائل بھی حل ہوچکے ہوتے۔ ادھر پرویزمشرف کی حکومت ختم ہوئی تو یہ منصوبہ بھی تعطل کاشکار ہوگیا، پیپلزپارٹی دور میں تو معاملات زیادہ ترخاموشی سے ہی گزر گئے مگر نوازشریف دور میں بھی اسے محض اس بنیاد پر نظراندازکیاگیا کہ یہ منصوبہ بھی شیخ رشید کے ساتھ منسوب تھا حالانکہ کئی بار میڈیا میں شیخ رشید نے اعلانیہ کہاکہ بے شک ان کانام ہٹا دیاجائے لیکن منصوبہ مکمل کیاجائے ‘مگر کون سنتاہے، وہی کچھ ہوتا ہے جو برسراقتدار سیاستدان یا افسرشاہی چاہتی ہے۔ ماں بچہ ہسپتال، ویمن کالج اور لئی ایکسپریس وے کے عوامی منصوبے تیرہ برس تک بند پڑے رہے اور وجہ صرف سیاسی عناد تھا جس کی قیمت عوام کو بھرنی پڑی۔ چند ارب روپے والا لئی ایکسپریس وے منصوبہ آج ستر ارب روپے تک پہنچ چکاہے اور ابھی کم ازکم پانچ یا دس ارب روپے مزید اضافہ ہوسکتاہے جو قومی خزانے پر بوجھ پڑے گا۔ سابق دور حکومت میں میٹروبس سروس کا آغاز بلاشبہ ایک اچھا پراجیکٹ ہے جس سے روزانہ لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں لیکن میٹروبس راولپنڈی اسلام آباد میں ٹریفک کامسئلہ بھی حل نہ کرسکی اور یہ بس صرف ایک مخصوص روٹ پر ہی چلتی ہے تاہم لئی کامنصوبہ مکمل ہونے کے بعد نہ صرف ٹریفک کامسئلہ حل ہوگا بلکہ اس سے معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی۔ یہ تو صرف ایک شہر میں سیاسی عناد کی مثالیں ہیں جن کی وجہ سے عوام کودو دہائیوں تک اپنے حقوق سے بھی محروم رکھاگیا بلکہ سرکاری خزانے پر بھی کھربوں روپے کااضافی بوجھ پڑا۔ اگر ماضی کی حکومتیں ان منصوبوں کوجاری رکھتیں تو عام آدمی کو ریلیف ملنے کے ساتھ اربوں روپے کی بچت بھی ہوتی۔بدقسمتی سے موجودہ دور میں بھی صورتحال کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوئی، آج بھی سیاسی مخالفین کو کرپشن کے نام پر رگڑا لگایا جارہاہے بلکہ اپنوں کونوازنے کے سلسلے بھی کم نہیں ہوئے۔ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے نشانے پر ہیں تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) والے ٹارگٹ پر ہیں، ایسا لگتاہے کہ ملک میں کرپشن صرف نوازلیگ نے ہی کی ہے اورکر رہی ہے اور جو لوگ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو الوداع کہہ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے گویا انہوں نے ماضی کے سب گناہ بخشوا لیے ہیں۔
اختیارات کاناجائز استعمال صرف سیاستدانوں کی جانب سے ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگاکہ سیاستدان تو صرف بدنام ہیں، ورنہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، افسر شاہی کی من مانیاں بھی کم نہیں ہوتیں، کچھ عرصہ قبل راولپنڈی میں ایک نئے افسر کی تعیناتی ہوئی تو انہوں نے کورونا کی آڑ لے کر کالجز میں کھیلوں کی سرگرمیاں بند کروادیں اورپھر اپنے احکامات کے ذریعے کالجوں کی انتظامیہ کو اپنے دبائو میں ایسا لایاکہ شہر میں طلبا وطالبات کیلئے مثبت سرگرمیاں ہی ناپید ہوگئیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کھیلنے آ سکتی ہے اور تماشائیوں کے بغیر کرکٹ میچ ہو سکتے ہیں تو سکولوں کالجوں میں کھیل کیوں نہیں ہو سکتے۔ کورونا سے مکمل احتیاط ہر حال میں کی جائے مگر ممکن ہو تو کھیل کی سرگرمیاں بھی بحال کی جائیں کہ یہ بھی تعلیمی سلسلے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ وقارالنساء کالج کو شہر کی تیسری خواتین یونیورسٹی بنانے کااعلان وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کئی بار کرچکے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ اس فیصلے پر بھی عمل کروائیں اور اپنے شہر سے ہر شعبے کے ایسے لوگوں کوبھی تبدیل کرائین جن کے اختیارات عوامی مفاد کی بجائے مسائل میں اضافے کاباعث بن رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو بھی چاہئے کہ ملک میں جہاں بھی اختیارات کاناجائز استعمال ہورہاہے اسے ٹھیک کریں تاکہ آئندہ سال جب انتخابی مہم شروع ہوتو حکمران جماعت کوتنقید کاسامنا نہ کرنا پڑے۔