کورونا، لاک ڈائون اور حکومتی پالیسیاں

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا کی عالمی وبا کی تیسری لہر چل رہی ہے، اس وبا اور لاک ڈائون نے جہاں عام شہریوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کیا ہے‘ وہیں اب حکومت نے مہنگائی اوردیگر قومی بحرانوں کی ذمہ داری بھی اپوزیشن کے بعد کورونا پر ڈالنا شروع کردی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پر اللہ تعالیٰ کاخاص کرم رہا اور وطنِ عزیز میں اس خطرناک وبا کی پہلی دو لہروں نے وہ تباہی نہیں پھیلائی جو کئی علاقائی اور ترقی یافتہ ممالک کو بھگتنا پڑی یا کئی ممالک ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر قدرت ہم پر مہربان نہ ہوتی تو ہم میں اس وبا کا مقابلہ کرنے کی بالکل بھی سکت نہ تھی۔ ہمارے وسائل محدود تھے اور قومی سطح پر ایسی سنگین صورتحال کاسامنا کرنے کیلئے شعور بھی اجاگر کرنے کی ضرورت تھی‘ جو شاید اس معیار کے مطابق اجاگر نہیں کیا گیا۔ ہمارے انفرادی، اجتماعی، انتظامی اور حکومتی اقدامات بھی زیادہ ٹھوس نہ تھے، بس قدرت ہم پر مہربان تھی اور ہم سمجھتے رہے کہ ہماری تدبیریں بڑی کامیاب رہی ہیں۔ کووڈ 19 کے ساتھ ایک برس سے زائد عرصہ گزارنے کے باوجود ہم نے تاحال سبق حاصل نہیں کیا، ہماری احتیاطی تدابیر وائرس سے بچائو کے بجائے دکھاوے والی زیادہ ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی کچھ ایسے اقدامات کیے جاتے رہے جن سے خوف وہراس کی فضا تو بنتی رہی مگر فائدہ کم ہوا۔ بہرحال ہم اللہ پاک کے شکرگزار ہیں جس نے ہمیں ہر حال میں محفوظ رکھا۔
عالمی ادارۂ صحت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے حالات اور تجربات ہمارے سامنے ہیں لیکن اس کے باوجود اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومت ابھی تک عوام کو ٹھیک سے مطمئن نہیں کر سکی ہے۔ آج بھی عوامی سطح پر ایسے ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا جواب دنیا بہت پہلے تلاش کر چکی ہے مگر ہمارے ہاں نہ تو ایسی ریسرچز کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور نہ ہی عوام تک درست معلومات پہنچائی جا رہی ہے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہو گا کہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کورونا وائرس بچوں اور نوجوانوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے یا بزرگوں کو؟ کیونکہ ہم ہمیشہ اپنے لاک ڈائون کا آغاز بچوں سے کرتے ہیں اور سب سے زیادہ پابندیاں بچوں پر ہی لگاتے ہیں جبکہ ویکسی نیشن کا آغاز سینئر سٹیزنز سے کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کا زیادہ حملہ کمزور امیونٹی والوں پر ہوتا ہے اور بزرگ چونکہ عمر رسیدہ ہونے کے باعث کمزور امیونٹی کے حامل ہوتے ہیں‘ اس لیے انہیں ویکسین کی زیادہ ضرورت ہے۔ برطانیہ‘ جہاں اس وائرس نے کافی تباہی مچائی‘ میں کورونا کے مریضوں کی اوسط عمر ساٹھ سال ہے۔ ایسے بزرگ جو پہلے ہی کسی مرض سے دوچار ہوں‘ کورونا کے باعث ان کا پرانا مرض بھی بگڑ سکتا ہے۔ اسی لیے سب سے پہلے ویکسین کی ضرورت بزرگوں کو ہے۔ البتہ بچوں کے حوالے سے زیادہ تر ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بچے سب سے کم وائرس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کو کورونا نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں بھی برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پہلے لاک ڈائون میں سکولوں کو بند نہیں کیا گیا مگر پھر بچوں میں کورونا وائرس کے کیسز کی شرح حیرت انگیز طور پر بڑھنے سے سکولوں میں جاری امتحانات کو منسوخ کر کے فوری طور پر تعلیمی اداروں کو تین ماہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ نہ صرف انگلینڈ بلکہ تمام یورپی یونین ممالک نے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا۔ اسی طرح فرانس، بلجیم اور چند دوسرے ممالک میں کورونا کی دوسری لہر میں بزرگوں کی نسبت نوجوانوں کے وائرس سے متاثر ہونے کے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، جس کی وجہ سے ان ممالک کو دوبارہ کہیں کرفیو اور کہیں لاک ڈائون کا سہارا لینا پڑا، چونکہ ہمارے ہاں پہلی دونوں لہریں زیادہ متاثر کن نہیں تھیں اس لیے عوام ان باتوں سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکے، اس کے باوجود ہمارا حال یہ ہے کہ اب تک ملک بھر میں 6 لاکھ 33 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا ہندسہ 14 ہزار کو چھو رہا ہے۔ البتہ پالیسی سازی میں بھی ایسی کئی خامیاں سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے لوگ ابہام کا شکار ہو جاتے ہیں مثلاً ہمارے پالیسی ساز ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کورونا وبا میں تیزی کے بعد سب سے پہلے کون سا قدم اٹھانا چاہیے؟ لاک ڈائون کا آغاز کن علاقوں سے کرنا چاہیے؟ لاک ڈائون کی صورت میں سب سے پہلے کس شعبے کو بند کرنا چاہیے اور سب سے آخر تک کہاں ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ کورونا وائرس کن اوقات میں زیادہ متاثر کرتا ہے یا چوبیس گھنٹے ہی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے؟ جیسے پہلے بیان کیا گیا کہ ہمارے ہاں بیشتر اقدامات وائرس سے بچائو کے بجائے دکھاوے کے ہوتے ہیں، اگر کوئی شخص ذاتی حیثیت میں ضرورت سے زیادہ احتیاط نہ کرے تو اردگرد کاماحول اسے بچانے کے لیے ہرگز سازگار نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے پر سیاست کا اتنا غلبہ ہے کہ بعض لوگ ہر چیز میں سے سیاست کشید کر لیتے ہیں، مثلاً سمارٹ لاک ڈائون کے حوالے سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ انتظامیہ یا حکومت اسے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے‘ کیونکہ اربابِ اختیار اپنی مرضی سے کسی کو بھی ریلیف دے سکتے ہیں اور کسی پر بھی پابندیاں سخت کر سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ اگر شادی یا کسی دوسرے اجتماع میں تین سو افراد کو شرکت کی اجازت دی جا سکتی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ تین سو افراد تک ایس او پیز پر عمل درآمد ہو سکتا ہے تو پھر ایک کلاس روم میں‘ تیس سے پچاس بچوں کو اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ اگر ایک پبلک پارک شام چھ بجے تک کھولا جا سکتا ہے جہاں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں تو کھیل کے میدان کیوں نہیں کھولے جا سکتے جہاں کسی بھی میچ میں کھلاڑیوں اور آفیشلز سمیت زیادہ سے زیادہ تعداد تیس ہوتی ہے؟ یقینا یہ ہماری پالیسی سازی کی خامیاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی بیشتر عوام کورونا وائرس کو ایک ڈرامہ سمجھتے ہیں۔ اللہ جانے ایسی پالیسیاں کون بناتا ہے اور یہ کیسے پاس ہو جاتی ہیں؟ کوئی ان پالیسیوں کی اصلاح کیوں نہیں کرتا۔ ایسی ہی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ گزشتہ دنوں ہونے والے ایک سروے میں بیشتر لوگوں نے کورونا وائرس کو ایک جھوٹ قرار دیا‘ حالانکہ ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے جن کا کوئی عزیز، رشتہ دار، ہمسایہ یا کوئی جاننے والا نہ صرف اس مرض کا شکار ہو چکا تھا بلکہ اس مرض میں ان کی موت بھی واقع ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں لاک ڈائون کو حکومت کا سیاسی ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔
جب کورونا کی تیسری لہر کا آغاز ہوا تو عوامی سطح پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ جب اپوزیشن نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو حکومت کی جانب سے انہی سات اضلاع میں سب سے پہلے تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان بند کر دیے گئے اور وہیں سمارٹ لاک ڈائون شروع کیا گیا جن اضلاع سے لانگ مارچ کے شرکا کی زیادہ شرکت متوقع تھی۔ اس سے عوام میں یہ تاثر پھیلاکہ شاید حکومت نے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے لاک ڈائون کا سہارا لیاہے۔ اب جبکہ اپوزیشن لانگ مارچ کو ملتوی کر چکی ہے‘ لاک ڈائون میں مزید سختی اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کورونا کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘ یہاں اہم معاملات میں سیاست کو گھسیٹ کر انہیں متنازع بنانے کی پرانی روایت ہے۔ عوام کو خود اس حوالے سے چوکنا رہنا چاہیے، یہ خطرناک وبا اب بھی موجود ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ مہلک ہو چکی ہے۔ آج بھی ہمارے کئی عزیز، دوست اور احباب ہسپتالوں میں زیر علاج یا قرنطینہ میں ہیں۔
اب ملک میں ویکسی نیشن مہم کا آغاز ہو چکا ہے‘ اس حوالے سے بھی یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ویکسین کے بعد دو سے تین ہفتوں میں اینٹی باڈیز بننے کا عمل شروع ہوتا ہے‘ اس لیے ویکسین کے بعد بھی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے‘ بیشتر بزرگ افراد یہ ویکسین لگوا چکے ہیں، ان حالات میں یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ ان شاء اللہ یہ کورونا کی آخری لہر ثابت ہو گی اور اگلی لہر سے قبل ہی ویکسی نیشن کا عمل مکمل ہو چکا ہو گا، بس ہمیں یہ وقت احتیاط اور مزید احتیاط سے گزارنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں