دنیا بھر میں کورونا کی تیسری لہر جاری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پہلے کیس سے آج تک‘ یہ عالمی وبا ختم نہیں ہوئی البتہ وائرس کی شدت میں کمی بیشی ضرور ہوتی رہی اور اسی بنیاد پر اس کی ویوز یعنی لہروں کا تعین کیا جاتا رہا۔ اسی طرح کورونا وائرس کی سنگینی میں اتنی کمی بیشی نہیں ہوئی جتنی احتیاطی تدابیر اپنانے کے حوالے سے دیکھی گئی۔ یہ عالمی وبا جب پاکستان پہنچی تو اس وقت شاید اتنا خطرہ نہیں تھا جتنا خوف پھیل گیا تھا جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں نے احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کر دیا، ماسک پہننے لگے، بار بار ہاتھ دھونے لگے، سماجی فاصلے کے اصول پر بھی عمل کیا جانے لگا، مصافحہ کرنے اور گلے ملنے سے اجتناب برتا جانے لگا۔ اس وقت کورونا وائرس کے خلاف حکومت کی جانب سے بھرپور آگاہی مہم کے علاوہ وبا کاخوف و ہراس اس قدر زیادہ تھا کہ ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد ہو رہا تھا، اس وقت بھی لاک ڈائون کی حقیقت یہ تھی کہ ملک بھر میں تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان بند کیے گئے، پارکس میں داخلہ محدود کیا گیا، پھر شٹر ڈائون بھی کر دیاگیا، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بھی بند کردی گئی یعنی غریب اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے دیہاڑی دار طبقے کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ تعلیم، کھیل، کاروبار، روزگار اور معاشرتی اقدار پر تو پابندیاں عائد تھیں ہی لیکن کورونا وائرس کو روکنے میں کوئی خاص مدد نہیں مل رہی تھی، وجہ یہ تھی کہ کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے وغیرہ بند تھے مگر نوجوانوں کے گلیوں‘ بازاروں میں گھومنے پھرنے اور کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، کھیل کے میدانوں پر تو تالے تھے لیکن ٹک ٹاک اور دوسری منفی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا، کاروبار بند تھا لیکن لوگ گھروں تک محدود نہیں تھے بلکہ گلی محلوں میں محفلیں سجی ہوئی تھیں۔ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہونے سے بھی غریب آدمی کی سفری مشکلات میں ہی اضافہ ہوا تھا کیونکہ ذاتی سواری رکھنے والوں کے لیے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں تھی، سڑکوں پر رش اسی طرح موجود تھا اور پرائیویٹ گاڑیوں میں ایس او پیز پر بالکل بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا، اسی طرح موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی تھی لیکن پولیس سمیت متعدد شعبوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، ان حالات میں صرف خدا کا فضل و کرم تھا اور کچھ خوف کہ تھوڑا بہت احتیاطی تدابیر پر عمل ہو رہا تھا‘ اسی وجہ سے عالمی وبا کی تباہ کاریاں اس طرح دیکھنے میں نہیں آئیں جس طرح دیگر ترقی یافتہ ممالک‘ امریکا، برطانیہ، جرمنی، اٹلی یا ہمسایہ ممالک ایران اور انڈیا میں دیکھنے کو ملیں۔ پھر حکومت نے اچانک سب کچھ کھولنے کا اعلان کیا تو سب نے یہ سمجھ لیاکہ جیسے لاک ڈائون نہیں بلکہ کورونا ختم ہو گیا ہے اور اب احتیاطی تدابیر کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔
کورونا کی دوسری لہر آئی تو اسے پاکستانی قوم نے مذاق ہی سمجھا۔ کسی نے اس پر یقین کیا اور نہ ہی ایس او پیز پر عمل درآمد کیا گیا۔ حکومت بھی بظاہر غیر سنجیدہ نظر آئی کیونکہ تعلیمی ادارے تو بند تھے مگر اجتماعات بالخصوص سیاسی اجتماعات پورے زور و شور سے ہو رہے تھے۔ ایک طرف حکومت پابندیوں کا اعلان کر رہی تھی تو دوسری جانب گلگت بلتستان میں جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جا رہا تھا، پی ڈی ایم کے جلسوں سے متعلق یہ کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کورونا کو بڑھاوا دے رہی ہے تو دوسری جانب حکومتی ترجمان، مشیر اور وزرا وغیرہ مجمع لگا کر پی ڈی ایم کے الزامات کا جواب دے رہے ہوتے تھے جس میں سماجی فاصلہ جیسے ایس او پیز تو دور‘ ماسک کی پابندی جیسے احکامات پر بھی عمل نہیں کیا جاتا تھا۔ پچھلے تین‘ چار ماہ کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں کہ ہر روز میڈیا ٹاک کرنے والے کتنے وزرا اور مشیروں نے خود ماسک کی پابندی پر عمل درآمد کیا۔ الغرض آدھے تیتر، آدھے بٹیر جیسی صورتحال میں دوسری لہر کی شدت بھی کم ہو گئی؛ تاہم اس دوران وطن عزیز میں سیاسی ماحول خاصا گرم ہو چکا تھا اور اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی جلسوں کا آغاز ہو چکا تھا، اسی باعث یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ اب اپوزیشن کی سرگرمیوں کوروکنے کے لیے حکومت لاک ڈائون کا سہارا لے گی۔ ادھر اپوزیشن کی سرگرمیاں لانگ مارچ اور دھرنے کی جانب بڑھنا شروع ہوئیں تو حکومت نے کورونا وائرس کی تیسری لہر سے خبردار کرنا شروع کر دیا لیکن عوامی حلقوں میں اسے مذاق سمجھا گیا حالانکہ محض پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت کورونا کی تیسری لہر سے نبرد آزما ہے لیکن حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے بظاہر ایسا تاثر ملا کہ حکومت اپوزیشن کے لانگ مارچ کو روکنے کی حکمت عملی کے تحت لاک ڈائون کر رہی ہے۔ اپوزیشن نے لانگ مارچ کے لیے جب 26 مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا تو حکومت نے سماجی سرگرمیاں محدود کرنے کیلئے پہلے مرحلے میں تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان 28 مارچ تک بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ لاہور، گوجرانوالہ اور راولپنڈی سمیت انہی سات اضلاع میں لاک ڈائون کا نفاذ کیا گیا جہاں اپوزیشن کا ہولڈ زیادہ تھا۔ ان اضلاع میں کاروبار شام چھ بجے بند کرنے اور ہفتہ‘ اتوار مکمل لاک ڈائون کا حکم بھی جاری کیا گیا مگر یہ تاثر زائل کرنے میں حکومت ناکام رہی کہ لاک ڈائون کا اپوزیشن کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب اپوزیشن نے لانگ مارچ ملتوی کیا تو عام خیال تھا کہ اب لاک ڈائون بھی ختم ہو جائے گا، حکومت کی جانب سے بعض ایسے اقدامات بھی کیے گئے مثلاً مارکیٹوں کی ٹائمنگ شام چھ بجے کے بجائے کہیں سات اور کہیں آٹھ بجے تک کی گئی اور اکثر اضلاع میں ہفتہ اور اتوار کے بجائے جمعہ اور ہفتہ کو دکانیں بند کرنے کی اجازت دی گئی‘ تو ایسی پالیسیوں نے شکوک وشبہات میں مزید اضافہ کیا۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق کورونا وائرس سے گزشتہ روز 41 افراد جاں بحق ہوئے، جس کے بعد اموات کی کل تعداد14 ہزار256 ہو گئی ہے۔ پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد6 لاکھ59 ہزار 116 ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران4 ہزار525 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔اب جبکہ تیسری لہر کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے اور پنجاب حکومت نے نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے‘ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اعلامیے کے مطابق یکم سے 11 اپریل تک 12 فیصد شرح والے شہروں میں موثر لاک ڈائون ہو گا، شادی اجتماعات پر مکمل پابندی ہو گی، اِن ڈور اور آئوٹ ڈور تقریبات نہیں ہو سکیں گی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بندش ہو گی، پبلک ٹرانسپورٹ‘ میٹرو بسیں اور اورنج ٹرینیں نہیں چلیں گی، دکانیں شام چھ بجے بند ہوں گی‘ ہفتے میں دو دن کاروبار نہیں ہو گا۔حکومت کی نئی پابندیوں کے مطابق انڈسٹری، کنسٹرکشن اور گڈز ٹرانسپورٹ میں معمول کے مطابق کام ہو گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس نے ان شعبوں کو متاثر نہ کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے؟ مذکورہ بالا باتوں کا مقصد حکومت کی نیت پر شک یا تنقید ہرگز نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ امتیازی پالیسیوں سے وائرس کی روک تھام میں کوئی مدد نہیں ملے گی بلکہ ان سے صرف بند کیے جانے والے شعبوں کو نقصان پہنچے گا۔ عالمی وبا کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے بلاتفریق موثر پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے، من پسند شعبوں کو استثنا دینا درست نہیں، اگر غریب کی دکان بند کرنا ضروری ہے تو امیر کی فیکٹری بھی بند ہونی چاہئے۔
جب تک حکومت ایس او پیز اور لاک ڈائون کے حوالے سے بلاامتیاز پالیسی نہیں اپنائے گی‘ تب تک کورونا کو کنٹرول کرنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اسی وقت دور ہو سکتے ہیں جب بلاتفریق پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے، بالخصوص حکومتی عہدیداران، وزیر اور مشیر وغیرہ خود ایس او پیز پر عمل کرتے نظر آئیں۔ دوسری جانب عوام کو بھی چاہئے کہ کورونا کی سنگینی کا ادراک کریں، ماسک پہنیں، سینی ٹائزر استعمال کریں، ویکسی نیشن کرائیں اور سماجی فاصلے سمیت تمام ایس او پیز پر عمل کرکے اپنی اور دوسروں کی قیمتی جان بچائیں۔