ایک طرف حکومت کے دعوے ہیں اور دوسری جانب زمینی حقائق۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ماہِ مقدس میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے یوٹیلٹی سٹورز پر 7 ارب 60 کروڑ روپے کا سبسڈی پیکیج دیا جا رہا ہے۔ رمضان پیکیج کے اعلانات سنتے ہی یوٹیلٹی سٹورز پر شہریوں کا سیلاب امڈ آیا۔ تصویر کا دوسرا رخ (زمینی حقیقت) دیکھیں تو تمام یوٹیلٹی سٹورز کے باہر روزہ داروں کو دو کلو چینی یا آٹے کے ایک تھیلے کے لیے کئی کئی گھنٹے لمبی قطاروں میں خوار ہونا پڑتا ہے، گرمی کے باعث متعدد شہریوں کے بے ہوش ہونے کی خبریں بھی آ رہی ہیں، مہنگائی کے ستائے عوام سستی اشیا کے حصول کیلئے کورونا ایس او پیز کو فراموش کر بیٹھے ہیں، کہیں پر بھی سماجی فاصلے کی پابندی پر عملدرآمد نہیں ہو رہا جس سے کورونا پھیلنے کاخدشہ دوچند ہو گیا ہے، یوٹیلٹی سٹورز انتظامیہ کی جانب سے عوام کی سہولت کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا بلکہ بظاہر جو اقدامات سامنے ہیں ان میں بھی بد عنوانی کے خدشات ابھر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے رمضان ریلیف پیکیج 2021ء کے تحت 19 اشیاء پر خصوصی رعایت فراہم کی جا رہی ہے جس کے مطابق آٹے کا 20 کلو گرام کا تھیلا 800 روپے، چینی 68 روپے فی کلو، گھی 170 روپے فی کلو میں دستیاب ہے جبکہ کوکنگ آئل پر 20 روپے فی لیٹر، دال چنا پر 15روپے فی کلو گرام، دال مونگ پر 10 روپے، بیسن پر 20 روپے، کھجور پر 20 روپے فی کلو سبسڈی دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی 1500 سے زائد اشیا پر خصوصی رعایت فراہم کی جا رہی ہے، لیکن سب سے خطرناک صورتِ حال یہ ہے کہ روزے کی حالت میں تین سے چار گھنٹے تک شدید گرمی میں کھڑے رہ کر شہریوں کو چینی و آٹے کے بغیر مایوس واپس لوٹنا پڑتا ہے، اکثر یوٹیلٹی سٹورز پر کئی گھنٹے قطار میں لگنے کے بعد باری آنے پر بتایا جاتا ہے کہ سٹور میں آٹا اور چینی کا سٹاک ختم ہو گیا ہے اور اب انہیں اگلے روز چند روپے کی بچت کے لیے دوبارہ قطار میں کئی گھنٹے کی خواری کاٹنا ہو گی، گارنٹی پھر بھی نہیں کہ دوبارہ چینی یا آٹا ملے گا یا نہیں۔ اسی طرح بعض سٹوروں پر غریب شہریوں کو سستی چینی یا آٹا خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اتنی مالیت کی دیگر اشیا بھی لازمی خریدیں ورنہ آٹا، چینی نہیں ملیں گے۔ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اربوں روپے کی سبسڈی کا فائدہ غریب عوام کو آٹے میں نمک کے برابر ہی پہنچ رہا ہے جبکہ یوٹیلٹی سٹورز کے عملے کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ اکثر شہری سٹورز کے باہر لمبی اور سست رو قطاریں دیکھ کر ہی مایوس لوٹ جاتے ہیں جبکہ سینکڑوں لوگوں کو روزے اورگرمی کی حالت میں تین سے چار گھنٹے طویل قطار میں انتظار کے بعد خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔
ایسی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ یوٹیلٹی سٹورز کا عملہ قصداً غریب عوام کو خوار کر رہا ہے جبکہ چینی اور آٹے سمیت سستی اشیائے مبینہ طور پر تاجروں کو فروخت کی جا رہی ہیں، اس طرح حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی بعض سٹورز کے عملے اور دکانداروں کی ملی بھگت سے ان کے اکائونٹس میں جا رہی ہے۔ تلہ گنگ سے ایک بزرگ شہری نے بتایا کہ یوٹیلٹی سٹورکے باہر طویل قطار میں کئی گھنٹے کھڑے رہتے ہیں لیکن قطار اتنی سست رو ہوتی ہے کہ اکثر بزرگ شہری روزے اورگرمی سے نڈھال ہو کر بغیر خریداری کیے ہی واپس جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ عملہ کورونا ایس او پیز کی آڑ میں جان بوجھ کر سٹور کے دروازے بند کر کے ایک ایک شہری کو اندر جانے کی اجازت دیتا ہے تاکہ وقت ضائع ہو اور لوگ بغیر خریداری واپس چلے جائیں۔ ان بزرگ نے خدشہ ظاہر کیا کہ سٹور کا عملہ سبسڈی والی سستی اشیا مبینہ طور پر دکان داروں کو فروخت کر رہا ہے اور غریب عوام عام مارکیٹ سے مہنگے داموں اشیا خریدنے پر مجبور ہیں۔
اگر عام مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو ماہِ مقدس میں بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی قابو میں نہیں آ سکی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت یوٹیلٹی سٹورز میں سبسڈی دینے کے ساتھ اوپن مارکیٹ میں بھی قیمتوں کو کنٹرول کرے۔ وفاقی و صوبائی وزرا، حکومتی ارکانِ اسمبلی، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مشیران، انتظامیہ کے افسران اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس روزانہ سستے رمضان بازاروں کا دورہ کرتے ہیں، اس کے لیے میڈیا کو بھی باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے اور یوٹیلٹی سٹورز پر دی جانے والی سبسڈی اور ماڈل بازاروں کی خوب تعریفیں بھی ہوتی ہیں لیکن جب سٹورز پر عوام کی خواری، عملے کی مبینہ بدعنوانی اور عام مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سوال سامنے آتا ہے تو بات کا رخ بدل دیا جاتا ہے یا اکثر یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ کیا کریں‘ ہمارے ملک میں ایسے ہی چلتا ہے یا پھر گھما پھرا کر وہی مافیا والی گردان دہرائی جاتی ہے، یعنی اپنی نااہلی اور غفلت کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر اہلِ اقتدار یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر سسٹم میں کوئی خرابی ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے، یہ ان کا ہی مینڈیٹ ہے کہ سسٹم کی خرابیوں کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں مگر افسوس کہ پچھلے پونے تین سالوں میں وہ یہ بھی نہیں کر سکے ہیں اور اب بھی ہر خرابی اور ہر برائی کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں اور چھوٹے موٹے مافیاز کو قرار دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حکومتی وعدے اس بار بھی ایفا نہ ہو سکے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ضروری اشیا کی قیمتیں غریب کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، مہنگائی عروج پر ہے۔ اگر سبزیوں کی بات کی جائے تو منڈی میں مٹر 250 روپے، لیموں 200 روپے اور لہسن 100 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ ٹماٹر بھی 60 روپے سے 80 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہے ہیں جبکہ عام دکانوں پر یہ ریٹ دوگنے سے بھی زیادہ ہیں اور کئی چیزوں کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ عام دکانوں پر میسر ہی نہیں ہیں۔ اگر پھلوں کی قیمتوں کی بات کریں تو وہ بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، امرود 150 سے 200 روپے، رمضان سے قبل 50 روپے درجن فروخت ہونے والا کیلا 150 روپے فی درجن، 100 روپے فی درجن والا کینو 200 سے 300 روپے فی درجن اور چند روز قبل تک 20 روپے فی کلو فروخت ہونے والا خربوزہ 80 روپے فی کلو گرام تک فروخت ہو رہا ہے۔ پھلوں کے نرخ بھی کئی گنا اضافے کے ساتھ عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکے ہیں۔
حکومت اور انتظامیہ کو چاہئے کہ سب سے پہلے عام مارکیٹ میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو متحرک کرے اور فوٹو سیشن کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں، تمام دکانداروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ نرخ نامے نمایاں جگہوں پر آویزاں کیے جائیں، یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی اشیائے خور و نوش کا معیار بہتر ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دکاندار نرخ نامے کے مطابق قیمت تو درجہ اول اشیا کی وصول کریں لیکن مال دو نمبر فروخت کریں، لہٰذا قیمتوں کے ساتھ اشیا کا معیار چیک کرنا بھی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس سے بھی اہم بات یوٹیلٹی سٹورز پر ساڑھے سات ارب روپے سے زائد کی دی جانے والی سبسڈی کی مانیٹرنگ کرنا ہے کیونکہ اب تک تو آٹے اور چینی شہریوں کو کم ہی میسر آئے ہیں جبکہ زیادہ تر خواری کا سامنا ہی کرنا پڑا ہے۔ اگر موثر مانیٹرنگ نہ کی گئی تو یہ سبسڈی بھی بدعنوان عناصر کی جیبوں میں چلی جائے گی۔ سٹورز کے عملے کو اس بات کا بھی پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ غریب شہریوں کو چینی اور آٹے کے ساتھ دیگر اشیا خریدنے پر مجبور نہ کریں اور وافر سٹاک یقینی بنایا جائے، جس سٹور سے چینی یا آٹے کا سٹاک ختم ہونے کا بہانہ بنایا جائے اس کے عملے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تا کہ عوام کو آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی‘ کچھ تو ریلیف مل سکے۔