2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کا ہما پاکستان تحریک انصاف کے سر پر بیٹھا۔ وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں معرضِ وجود میں آ گئیں۔ تحریک انصاف جب تک اقتدار کی مسند تک نہیں پہنچی تھی‘ اس وقت تک اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی اور مقامی حکومتوں کی خودمختاری کی بہت بڑی حامی تھی مگر جیسے کہا جاتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی سوچ اور معیار میں فرق ہوتا ہے۔ مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد‘ حکمران جماعت کے ارکانِ اسمبلی کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی کہ صوبے میں تقریباً پچانوے فیصد بلدیاتی نمائندوں کا تعلق سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے تھا، راولپنڈی اور لاہور سمیت تمام شہروں کے میئرز، چیئرمین، وائس چیئرمین اور دیگر مقامی نمائندوں کا تعلق اپوزیشن سے تھا۔ آئین و قانون کے مطابق سٹریٹ لائٹس کی تنصیب اور گلیوں و نالیوں کی تعمیر و مرمت سے لے کر شہر کی تعمیر و ترقی انہی بلدیاتی نمائندوں کے ہاتھ میں تھی۔ چونکہ فنڈز کارپوریشنوں، کمیٹیوں اور یونین کونسلوں کی صوابدید پر تھے لہٰذا یہ بات برسر اقتدار آنے والی جماعت کے لیے قابل برداشت نہ تھی سو پانچ سال کے لیے منتخب عوامی نمائندوں کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے گھر بھیج دیاگیا اور بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے ایک سال میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا مگر ایک برس بعد پنجاب حکومت ایک نئی ترمیم لے آئی اور پھر ایک آرڈیننس جاری کر دیا گیا‘ جس سے معاملہ التوا کا شکار ہو گیا۔ اُس وقت بھی حکومت کے اتحادی ایک اہم وفاقی وزیر نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ پی ٹی آئی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ بلدیاتی الیکشن جیتنا اس کے لیے آسان نہیں لہٰذا یہ حکومت اتنی جلدی یہ انتخابات کبھی نہیں کرائے گی اور پھر گزرتے وقت نے ان کی اس بات کو درست ثابت کیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز اور دیگر بلدیاتی نمائندوں نے صوبائی حکومت کے اقدام کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کر دیا، پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 2016ء میں ہوئے تھے اور ان کی مدت دسمبر 2021ء میں مکمل ہونا ہے۔ چیف جسٹس‘ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما دانیال عزیز اور شہری اسد کی درخواست کی سماعت کی اور 25 مارچ 2021ء کو بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا ایسا تاریخی فیصلہ دیا جس کے بعد اب آئندہ کسی کو بلدیاتی اداروں پر شب خون مارنے کی جرأت نہیں ہو گی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ عوام کو ان کے منتخب نمائندوں سے محروم کرنا کسی طور پر بھی آئینی نہیں ہے، 2019ء میں پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بلدیاتی ایکٹ کی شق تین ماضی میں پاکستانی آئین کا حصہ رہنے والے قانون 58 ٹو بی کے مترداف ہے جس کے تحت ماضی میں صدر یا آمر منتخب حکومتوں کو ختم کرتے رہے‘ محض ایک نوٹیفیکیشن کا سہارا لے کر اداروں کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بحالی کے باوجود پنجاب حکومت نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل نہ کیے اور نہ ہی کام کرنے کی اجازت دی جس پر عدالت عظمیٰ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کر دیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ بلدیاتی نمائندے خود کام نہیں کرنا چاہتے، بلدیاتی نمائندے حکومت کو عدالتی فیصلے کی کاپی بھجوا کر بیٹھ گئے، کام کیوں نہیں کر رہے، اجلاس بلانا ہے تو گھر میں بلائیں یا گرائونڈ میں، کیا آپ ریڈ کارپٹ چاہتے ہیں؟ درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے 25 مارچ کے فیصلے کے باوجود بلدیاتی نمائندگان کو ان کے دفتر میں نہیں جانے دیا، نہ فنڈز دیے جا رہے ہیں ہمارے خلاف فوجداری مقدمات بنائے گئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے نمائندگان نے اجلاس بلانے کی کوشش کی مگر حکومت اجازت نہیں دے رہی۔ چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے بحالی کا حکم دے دیا، بلدیاتی نمائندگان نے کچھ نہیں کیا، پنجاب حکومت کی طرف سے غلطی ہو رہی ہے‘ مگر اب تک آپ نے کیا کیا؟ اب کیس کی مزید سماعت موسم گرما کی تعطیلات کے بعد ہو گی۔
عدالتی حکم پر میٹرو پولیٹن کارپوریشن راولپنڈی کا اجلاس طلب کیاگیا؛ تاہم انتظامیہ نے اجلاس رکوانے کیلئے جناح ہال کو تالے لگا دیے اور چیف افسر سمیت تمام کارپوریشن افسران اپنے دفاتر سے غائب ہو گئے جس پر منتخب ایوان نے پارکنگ کے ساتھ مرکزی راہداری میں زمین پر اجلاس منعقد کیا۔ میئر راولپنڈی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کنوینر و ڈپٹی میئر کے علاوہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اورحکمران جماعت تحریک انصاف کے ممبران سمیت خواتین اور لیبر ممبران نے شرکت کی اور خطاب کیا۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں نے جناح ہال کی تالہ بندی اور افسران کے غائب ہو جانے پر شدید احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی۔ میئر راولپنڈی سردار نسیم کا کہنا تھا کہ اپریل 2019ء میں آخری اجلاس کے وقت جب بلدیاتی ادارے توڑے جانے کی افواہیں گرم تھیں‘ اس وقت راولپنڈی پنجاب کا پہلا شہر تھا جس کے منتخب ایوان نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر حکومتی اقدام کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی تھی اور سپریم کورٹ کے حکم پر 2 سال 2 ماہ بعد جب اجلاس ہو رہا ہے تو تمام جماعتوں کے ممبران متفقہ طور پر اس میں موجود ہیں‘ جو آئین و قانون کی فتح ہے۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا تاریخی فیصلہ دے کر بلدیاتی ایکٹ کی شق3 میں ترمیم کو آئین سے متصادم و غیر قانونی قرار دیا اور واضح کیا کہ 4 مئی 2019ء سے قبل کے بلدیاتی نظام کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کیا جائے لیکن صوبائی حکومت اب بھی اپنی ضد پر قائم ہے۔ تمام تر حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود آخری فتح تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کے تحت تمام یونین کونسلیں بھی بحال ہیں‘ تمام منتخب چیئرمین اپنی اپنی یونین کونسلوں کے اجلاس بلا کر کارروائی کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔ بلدیاتی نمائندوں نے انتظامی افسران کی جانب سے 25 مارچ 2021ء کے بعد بلدیاتی فنڈز کے استعمال کو سراسر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان افسران کو اس کا حساب دینا پڑے گا، عدالتی احکامات کے بعد افسران منتخب ایوان کی منظوری کے بغیر فنڈز سے ایک پائی خرچ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
کیس چونکہ زیر سماعت ہے‘ لہٰذا اس پر قبل از وقت کچھ کہنا یا تبصرہ کرنا درست نہیں؛ البتہ بلدیاتی نمائندوں نے قانونی جنگ کو تیز کر کے ہر غیر قانونی اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ پنجاب بھر کی میونسپل کارپوریشنز، ضلع کونسلز اور ٹائون کمیٹیاں رواں ہفتے اپنے اجلاس منعقد کریں گی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ صوبائی حکومت مقامی نمائندوں کو برداشت کرنے پر راضی نہیں ہے اور حتی الوسع انہیں فنڈز اور اختیارات سے دور رکھنے کی کوشش کرے گی جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے اور یہ کسی بھی طرح عوامی مفاد میں نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے ہمیشہ انصاف، میرٹ اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی بات کی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فیصلے کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف بلدیاتی اداروں کو آئین و قانون کے مطابق کام کرنے کا موقع فراہم کرے بلکہ نئے بجٹ میں ان کی تجاویز کو شامل کر کے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کی جانب بھی عملی قدم اٹھایا جائے۔ یہی اصل تبدیلی ہو گی جو پی ٹی آئی کا منشور بھی ہے۔