74 برس قبل‘ برصغیر پاک وہندکی تقسیم کا ٹاسک ایک برطانوی وکیل ریڈکلف کو سونپا گیا تھا جس نے ہندوستان کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت میں تقسیم کیا جبکہ ریاستوں کو اختیار دیا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ ریاستوں کے اختیار میں بھی اکثریتی آبادی کے مذہب کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔ اس فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی ریاست کشمیر پاکستان کے حصے میں آئی لیکن وہاں چونکہ ہری سنگھ نامی سکھ راجا کی حکومت تھی اور اس نے پہلے ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی؛ تاہم بعد میں بدنیتی کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ الحاق کا غیرقانونی معاہدہ کر لیا جو آزادی کے فوری بعد‘ دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین ایک پیچیدہ تنازع بن گیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین نے کشمیر کو بھارتی تسلط سے بچانے کے لیے 22 اکتوبر 1947ء کو تحریک آزادیٔ کشمیر کی بنیاد رکھی‘ جس کے جواب میں بھارت نے اپنی مسلح افواج میدان میں اتار دیں۔ قبائلی مجاہدین بھارت سے گلگت‘ بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر کے علاقے چھین کر پاکستان کے ساتھ ان کا انضمام کرنے میں کامیاب رہے جبکہ بھارتی افواج نے زبردستی باقی کے جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا۔
21 اپریل 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 47 منظورکی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصوابِ رائے کا اہتمام کیا جائے اور کشمیری لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں؛ تاہم مکمل فائر بندی کا نفاذ یکم جنوری 1949ء کو عمل میں آیا۔ اس معاہدے پر دستخط تو کر دیے گئے مگر فوجی انخلا پر اتفاق نہ ہو سکا۔
پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل علاقے ہیں؛ تاہم یہاں اقلیتوں کو تمام حقوق میسر ہیں اور انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ سرحد کے اِس طرف 'کشمیر کو جنت نظیر‘ سمجھا جاتا ہے، یہاں مکمل امن، سکون اور ہر قسم کی آزادی ہے، آزاد ریاست کے باشندوں کو پاکستان میں دہرے حقوق کے ساتھ مکمل آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے، یعنی کوئی پاکستانی شہری ریاست آزاد جموں و کشمیر میں ایک انچ بھی زمین نہیں خرید سکتا جبکہ کشمیری باشندے ریاست کے ساتھ پورے پاکستان میں جب‘ جہاں‘ جو خریدنا چاہیں، خرید سکتے ہیں۔ سرحد کے اُس پار مقبوضہ کشمیر میں تقسیم ہند سے لے کر آج تک‘ کشمیریوں نے بھارتی تسلط کوتسلیم نہیں کیا اور اکثریت آج بھی الحاقِ پاکستان کی حامی ہے جبکہ بھارتی افواج بندوق کے زور پر کشمیریوں کی آواز کودبانے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے باعث ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک چار بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں، 1947ء میں پہلی جنگ کے دوران پاکستان نے آزاد کشمیر کا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کرایا جبکہ تقسیم ہند سے آج تک بھارت وادیٔ جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقوں پر قابض ہے جبکہ اقصائے چن اور شکسگام کا غیر آباد علاقہ چین کے زیرِ انتظام ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوسری جنگ ستمبر 1965ء میں ہوئی جس میں پاکستان کی بہادر افواج نے کامیابی سے وطن کادفاع کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔ تیسری جنگ 1971ء میں ہوئی جس کے نتیجے میں سانحہ مشرقی پاکستان پیش آیا۔ چوتھی جنگ 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی جسے دنیا کا سب سے بلند، دشوار گزار اور مہنگا ترین میدانِ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے مابین عارضی سرحد (لائن آف کنٹرول) پر بھی گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ آئے روز بھارت کی جانب سے پاکستان کی معصوم شہری آبادی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور جب پاک فوج منہ توڑ جواب دیتی ہے تو بھارتی توپیں خاموش ہو جاتی ہیں۔ 27 فروری 2019ء کو بھی بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستانی علاقوں میں فضائی کارروائی کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی تھی جس کا پاکستانی شاہینوں نے بروقت جواب دیتے ہوئے دو بھارتی طیارے مار گرائے تھے اور پاکستانی حدود میں گرنے والے ایک مگ طیارے کے پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کرلیا تھا؛ تاہم بعد ازاں حکومت پاکستان نے امن کے پیغام کے طور پر بھارتی پائلٹ کو رہا کرتے ہوئے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا۔ یہ شکست دنیا بھر میں بھارت کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بنی اور بزدل دشمن کو دوبارہ پاک سرزمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہو سکی؛ تاہم اس کا غصہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے نکالا۔ کشمیریوں نے سات دہائیوں بعد بھی بھارت کے زیر قبضہ رہنے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور اسی لیے وہاں پر تحریک آزادی کے خوف سے کرفیو نافذ کر دیا گیا جو آج 730 دن گزر جانے کے بعد بھی برقرار ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔
5 اگست کو مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی فوجی محاصرے کو دو برس مکمل ہونے کے موقع پر مظلوم کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے پاکستان اور آزاد کشمیر کے شہریوں نے ''یومِ استحصال‘‘ منایا۔ بھارتی افواج کے مظالم اور کشمیری عوام کے خلاف انتہاپسند ہندو سرکار کے یکطرفہ غیر قانونی اقدامات کی مذمت کیلئے متعدد تقریبات کا اہتمام کیا گیا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں میلوں لمبی یکجہتی واکس کا انعقاد کیا گیا جن میں اہم حکومتی شخصیات سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ شرکا نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور ہاتھوں میں پاکستان و آزاد کشمیر کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ ملک بھر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، ٹریفک روک کر سائرن بجائے گئے، سیاسی و سماجی تقریبات میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حالتِ زار کو اجاگر کیا گیا اور بھارتی قابض فوج کے مظالم کو بے نقاب کیا گیا۔ اس سب کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں کشمیری عوام کس قدر ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔
ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور غیر قانونی پابندیوں کو دو برس مکمل ہو چکے ہیں تو دوسری جانب آزادکشمیر میں کشمیر پریمیئر لیگ (کے پی ایل) کا شاندار آغاز ہو رہا ہے۔ دنیا کے خوبصورت ترین مظفرآباد کرکٹ سٹیڈیم سے آج چوکوں و چھکوں کی بہار شروع ہو رہی ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آزادکشمیر دنیا کے سب سے خوبصورت خطے کے ساتھ انتہائی پُرامن علاقہ بھی ہے جو کھیل اورسیاحت کے لیے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ناکام اور بزدل بھارتی سرکار سے آزادکشمیر کے دارالخلافہ مظفر آباد میں ہونے والی کرکٹ لیگ کی کامیابی بھی برداشت نہ ہو سکی اور انگلش و افریقی کھلاڑیوں کو کشمیر پریمیئر لیگ میں شرکت سے روکنے کے لیے گھٹیا سازشیں اس وقت بے نقاب ہو گئیں جب ہرشل گبز سمیت متعدد غیر ملکی کرکٹرز نے بزدل بھارتی اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس اقدام سے دنیا بھر میں مکروہ بھارتی چہرہ بے نقاب ہوا اور کے پی ایل اپنے آغاز سے قبل ہی کامیاب ہو گئی۔
گزشتہ روز پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ''یوم استحصال‘‘ منایا اور آج ''کشمیر پریمیئر لیگ‘‘ کے شاندار آغاز سے جیسے بھارتی سازشوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا جا رہا ہے‘ اس سے یقینا مقبوضہ وادی کے نہتے کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور تحریک آزادیٔ کشمیر کو نئی جہت ملے گی؛ تاہم محض یہی کچھ کافی نہیں ہے، حکومت کو چاہئے کہ دنیا بھر میں بھارتی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی آواز کو پہنچانے کے لیے سفارتی محاذ پر کوششیں مزید تیز کی جائیں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو مقبوضہ وادی میں پنپتے انسانی المیے سے آگاہ کیا جائے۔