لاکھوں طلبہ کا مستقبل دائو پر

کورونا وائرس نے دنیا بھر میں بڑی تباہی مچائی جبکہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اس عالمی وبا سے بڑی حد تک محفوظ رکھا اور یہاں کووڈ 19کی چاروں لہروں میں کم سے کم جانی نقصان ہوا۔ اس بات کا کریڈٹ نہ تو حکومت لے سکتی ہے اور نہ ہی عوام نے احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عملدرآمد کیا، یہ خالصتاً خدائے کریم کی خاص مہربانی تھی۔ جہاں تک حکومت کی بات ہے تو سرکاری سطح پر ڈیڑھ سال میں کوئی خاص ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آ سکی، کبھی شٹر ڈائون کر دیا جاتا اور کبھی عوام کو بالکل ہی کھلی چھٹی دے دی جاتی، کبھی پبلک ٹرانسپورٹ بند کر کے سارا بوجھ ٹرینوں پر ڈال دیا جاتا تو کبھی ہفتے میں دو دن بازار بند کر کے کورونا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی حالانکہ اس پالیسی سے باقی دنوں میں رش ڈبل ہو جاتا ہے۔ کبھی مساجد پر پابندیاں عائد کرکے سیاسی جلسے‘ جلوسوں کو اجازت دی جاتی تو کبھی ریسٹورنٹس بند کرکے ریڑھی بانوں اور خوانچہ فروشوں کو بغیر ایس او پیز ناقص کھانے فروخت کرنے کا کھلا موقع فراہم کیا گیا۔ کبھی کھیل کے میدان بند کر دیے گئے جس سے نوجوان نسل منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہوئی، سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا، خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا تو کبھی پارکس کو کورونا کا مرکز قرار دے کر ان میں داخلے کی پابندی عائد کر دی گئی۔لاک ڈائون کے حوالے سے ابھی تک حکومت کوئی موثر پالیسی وضع نہیں کر سکی اور آئے روز نیا نوٹیفکیشن آ جاتا ہے جو پہلے احکامات سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ایک نوٹیفکیشن میں دکانیں شام چھ بجے بند کرنا کا حکم آتا ہے تو دوسرا آرڈر رات دس بجے تک بازار کھلے رکھنے کی اجازت دیتا ہے، اسی دوران کہیں سے رات آٹھ بجے تک کی اجازت کا سرکلر گردش کرنے لگتا ہے۔ صوبائی حکومتیں ایک پالیسی بناتی ہیں تو وفاق کی جانب سے کچھ اور تجاویز دی جاتی ہیں۔ ہر جگہ پولیس اور دیگر متعلقہ محکمے اپنی مرضی اور مطلب والے احکامات کو استعمال کرکے کاروباری طبقے کو پریشان کر رہے ہیں۔ اسی طرح عوامی سطح پر اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ عالمی ادارۂ صحت اور حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر کتنا عمل کیا گیا تو واضح ہے کہ ہماری قوم نے تو فیس ماسک کے استعمال میں بھی ہمیشہ سستی برتی، سماجی فاصلے کا لحاظ تو دور کی بات‘ مصافحہ کرنے اور بغل گیر ہونے سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا، صابن سے ہاتھ دھونے اور سینی ٹائزر کا استعمال بھی کچھ عرصہ اور کسی حد تک ہی کیا گیا، غرض ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے سو فیصد ایس او پیز پر عمل پیرا ہوکر کورونا وائرس کو شکست دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ باقی دنیا کے مقابلے میں پاکستان پر اللہ پاک کا خاص فضل وکرم رہا۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث سب سے زیادہ تعلیمی شعبہ متاثر ہوا ہے۔ نجی شعبے کے سکول، کالج اور جامعات تو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے طلبہ و طالبات کو مصروف رکھنے اور ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں کوشاں رہے لیکن سہولتوں اور وسائل کی کمی کے باعث آن لائن نظامِ تعلیم بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوا جبکہ سرکاری شعبے کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ سرکاری اداروں کے ملازمین نے کورونا وائرس کے دوران تعلیمی اداروں کی بندش کو خوب انجوائے کیا بلکہ اس دوران بھرپور سیاسی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہوئے احتجاجی مظاہروں اوردھرنوں میں حکومت سے اپنے متعدد مطالبات بھی تسلیم کرائے، حتیٰ کہ جب حکومت نے‘ کئی ماہ کی بندش کے بعد سکول کھولنے کااعلان کیا تو سرکاری شعبے کے اساتذہ نے اس پر خوب تنقید کی اور موسم گرما میں تعلیمی سرگرمیوں کو بچوں پر ظلم قرار دیا۔ ملک بھر میں اگر گرمی کی وجہ سے کسی ایک بچے کی بھی نکسیر پھوٹ پڑتی تو اس کے ناک سے بہتے خون کی وڈیوز کو سوشل میڈیا پر خوب اچھالا جاتا اور سکول کھولنے کے فیصلے کو ظلمِ عظیم قرار دیا جاتا۔
کووڈ 19 کے باعث سب سے زیادہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بچے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے امتحانات کے لیے بنائی جانے والی پالیسی کے تحت اگر کسی سٹوڈنٹ کا ایک پرچہ بہت اچھا ہوا تو اس کے مجموعی نمبروں کے تناسب میں پندرہ سے بیس فیصد اضافہ ہوگیا، اسی طرح اگر کسی بچے کا کسی بھی وجہ سے محض ایک پیپر ہی ٹھیک نہیں ہوا تو اس کی اوسط دس سے پندرہ فیصد کم ہو گئی۔ اس سے بھی بڑا نقصان ڈاکٹر بننے کی خواہش دل میںلیے‘ دن رات ایک کرکے خوب محنت کرنے والے ذہین طلبہ کے ساتھ ہوا جو میڈیکل کالجوں میں داخلے کیلئے انٹری ٹیسٹ دے رہے ہیں۔ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں مبینہ بے قاعدگیوں کی وجہ سے طلبہ میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ غیر پیشہ ور افراد کے زیر نگرانی امتحانات لیے جا رہے ہیں۔ پھر امتحانات کیلئے جو سنٹرز بنائے گئے ہیں‘ وہاں طلبہ کو کسی قسم کی سہولت مہیا نہیں کی گئی۔ امتحانات کی تیاری کے لیے وقت بھی نہایت کم دیا گیا۔ کہیں سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہونے کی شکایات موصول ہوئیں تو کہیں لوڈشیڈنگ کے باعث وقت ضائع ہو گیا۔ صوبوں کے حساب سے الگ الگ سیلیبس کے مطابق پیپر نہیں بنائے گئے جبکہ نصاب سے ہٹ کر سوالات کو پیپرزمیں شامل کیے جانے کی شکایات بھی ہیں۔ سب سے بڑی شکایت جو سامنے آئی وہ ایک سوال کے ممکنہ جوابات میں دو‘ ایک جیسے آپشنز کا دیا جانا ہے۔ اب اگر بالفرض کوئی بچہ آپشن نمبر ایک کو درست سمجھ کر ٹِک کرتاہے اور وہی آپشن تین نمبر پر بھی دیا گیا ہے اور دونوں جوابات درست ہوں گے مگر کمپیوٹر میں تو صرف ایک ہی آپشن کو درست ''فیڈ‘‘ کیا گیا ہو گا، جس سے طالبعلم اس پریشانی میں مبتلا رہے کہ کیا معلوم کہ کمپیوٹر ان کے جواب کو درست تسلیم کرے گا یا نہیں۔ اس طرح سو فیصد درست جوابات دینے والے طلبہ بھی فیل ہو رہے ہیں جو بہت بڑی ناانصافی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ڈاکٹروں کی متعدد تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ طلبہ، والدین اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے طلبہ کی تعلیم پہلے ہی کافی متاثر ہو چکی ہے جبکہ نئے قواعدکی وجہ سے طلبہ کو ریلیف ملنے کے بجائے ان کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ تمام امتحانات میں طلبہ کو ایک ہی طرح کا پیپر دیاجا رہا ہے جبکہ رائج طریقہ کار کے مطابق ہر پیپر مختلف ہونا چاہئے۔ پیپر کو کہیں آسان اور کہیں سخت بنایا جا رہا ہے۔ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کمپیوٹر سے نابلد ہونے کی وجہ سے امتحان دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ طلبہ سے پیپر پر نظرثانی کی درخواست کی سہولت بھی چھین لی گئی ہے، نہ ہی انہیں فوری طور پر رزلٹ ایشو کیا جا رہا ہے جبکہ ماضی میں طلبہ کو یہ ساری سہولتیں حاصل تھیں۔ بہت سے طلبہ کئی روز سے سراپا احتجاج ہیں اور تادم تحریر ڈی چوک میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمیں طلبہ کا مستقل محفوظ بنانا ہوگا۔ ان کاموقف ہے کہ ٹیسٹ دوبارہ لیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نوے فیصد سے زائد نمبر لینے والے ذہین طلبہ و طالبات اس ٹیسٹ میں فیل اور ساٹھ‘ پینسٹھ فیصد نمبر حاصل کرنے والے بچے پاس ہوکر میڈیکل کالجوں میں داخلہ لے لیتے ہیں تو یہ کس کا نقصان ہے؟ یہ ذہین بچوں کے ساتھ ناانصافی اور ان کا مستقبل تاریک کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب مبینہ طور پر سفارش یا رشوت کی بنیاد پر پاس ہونے والے طلبہ مستقبل میں ملک و قوم کے ساتھ کیا کھلواڑ کریں گے‘ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ آخر حکومت ان ذہین طلبہ کے مطالبات کا کب نوٹس لے گی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں