جب تک جدید سہولتوں سے مزین شہری آبادی کا جنون انسان کے ذہن پر سوار نہیں ہوا تھا‘ دنیا کی بیشتر آبادی قدرتی ماحول میں زندگی گزار رہی تھی اور آلودگی جیسے مسائل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔ صاف و شفاف ماحول کی وجہ سے مختلف قسم کی وبائی امراض کے خطرات بھی کم تھے۔ جوں جوں سائنس ترقی کرتی گئی‘ انسان بھی پُرتعیش زندگی کے خواب سجائے شہر بسانے لگا۔ ابتدا میں اینٹوں کے بھٹے، کارخانے اور کسی بھی قسم کی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل کو شہری آبادی سے دور رکھا گیا تاکہ شہری فضا آلودگی سے محفوظ رہے اور انسان خوشگوار ماحول میں سانس لے سکے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید سہولتوں نے انسانی زندگی کو جتنا سہل بنایا‘ وہیں لوگ کاہلی کا شکار بھی ہوتے گئے اور ہر چیز اپنی دہلیز پر ہی تلاش کرنے لگے۔ پہلے زرعی، صنعتی اور تجارتی علاقوں میں تفریق کم ہوئی اور پھر یہ سب کچھ شہری آبادی سے ملنے لگا جس کے نتیجے میں دھویں اورکیمیکلز کے اثرات شہروں کی فضا کو بھی آلودہ بنانے لگے۔
آلودگی کی ویسے تو بے شمار تعریفیں کی گئی ہیں مگر آسان ترین تعریف یہ ہے کہ قدرتی ماحول میں ایسے اجزا شامل کرنا جن کی وجہ سے منفی اور ناخوشگوار تبدیلیاں واقع ہوں۔ آلودگی کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت ہے۔ عام طور پر صنعتی کیمیائی مادوں کی وجہ سے فضا میں آلودگی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ توانائی، شور، حرارت یا روشنی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ آلودگی کی اقسام میں صوتی، آبی، فضائی، برقی، غذائی، زمینی اور بحری آلودگی اہم ہیں۔ یہ ایک جان لیوا رجحان ہے اور اس وقت پوری دنیا بدلتے موسموں، قدرتی آفات اور کورونا وائرس جیسی وبائوں کی تباہ کاریوں سے گزر رہی ہے، یہ مسائل بلا تخصیص رنگ و نسل اور ملک و قوم پورے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ ماحولیاتی مسائل زمین کے سینے پر کھنچی سیاسی لکیروں اور سرحدوں سے ماورا ہیں۔ آلودہ فضا کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کس ملک یا قوم کے باشندے کی سانسیں روک رہی ہے۔ خراب پٹرول سے نکلتا زہریلا دھواں، بڑھتی حدت سے پگھلتے گلیشیرز، سیلاب، خشک سالی، آلودہ دریا اور جنگلات کی کٹائی امیر ممالک کے لیے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہیں جتنا کہ کسی غریب ملک کے لیے۔ اہم بات البتہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نہ صرف ان خطرات کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ غربت ان مسائل کا ایک بڑا سبب ہے، لہٰذا وہ اس حوالے سے غریب ممالک کو امداد دے کر بظاہر ان کی زندگی آسان بنا رہے ہیں لیکن درپردہ وہ خود کو محفوظ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کا کیس بھی ایسا ہی ہے۔ قدرت ایسے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے جس سے فائدہ اٹھا کر ہم بہت کچھ مختلف کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے۔ ہم بروقت فیصلوں سے ہی اپنی زندگی کوخوش گوار بنا سکتے ہیں۔
حال ہی میںایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے‘ اس کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور دوسرے اور منی پاکستان کراچی ساتویں نمبر پر موجود ہے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کی جاری کردہ فہرست کے مطابق لاہور کی آلودہ فضا میں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 336 تک جا پہنچی ہے جبکہ کراچی کی مضرِ صحت فضا میں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 163 ریکارڈ کی گئی۔ بھارتی دارالحکومت دہلی دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے جہاں فضا انتہائی آلودہ ہے اور پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 445 تک ریکارڈ کی گئی۔ آلودگی میں چین کا شہر چینگ ڈو تیسرے نمبر پر ہے جس کی فضا میں آلودگی 174 پرٹیکیولیٹ میٹر ریکارڈ کی گئی۔ فضائی آلودگی کے اعتبار سے بھارتی شہر کولکتہ اور ممبئی چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں، کولکتہ کی فضا میں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 170 اور ممبئی کی فضا میں 169 ریکارڈ کی گئی۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق 151 سے 200 درجے تک آلودگی مضرِ صحت ہے جبکہ 201 سے 300 درجے تک کی آلودگی انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے جبکہ 301 سے زائد درجہ خطرناک ترین آلودگی کو ظاہر کرتا ہے‘ جس میں دمہ کے مریضوں کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ اس فضا میں سانس لینے سے پھیپھڑوں اور سانس کے مسائل شدت اختیار کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں میں اس قدر آلودگی شہری زندگی کیلئے خطرے کی علامت بن چکی ہے۔ راولپنڈی سمیت دیگر شہروں کی صورتحال بھی زیادہ آئیڈیل نہیں ہے۔ اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا اور ماحول کوبچانے کیلئے مؤثر اقدامات نہ کیے تو ہماری شہری زندگی مزید خطرات سے دوچار ہوتی جائے گی۔ خبروں کی حد تک تو ملک کے دوسرے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت لاہور میں سموگ اور آلودگی کے خاتمے کے لیے انتظامیہ نے کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں، انتظامیہ کے مطابق 108 سے زائد بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے اور 80 فیصد صنعتوں میں ڈرائی اور واٹر سکربر لگائے گئے لیکن یہ باتیں ہم کئی برسوں سے سنتے آ رہے ہیں۔ اگر واقعی ان پر عملدرآمد ہوا ہوتا تو شاید آج ہمارا پیارا شہر لاہور دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر نہ قرار پاتا۔
انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ فصلوں کی باقیات جلانے پر 2 کسانوں کو گرفتار کیا گیا، برکی روڑ پر ایک بھٹہ مالک کی گرفتاری عملی میں آئی، مگر یہ معمولی کارروائیاں صرف خانہ پری کیلئے محسوس ہوتی ہیں۔ اگر انتظامیہ واقعی مخلص ہو تو شہر کے اندر زہرآلود دھویں سمیت آلودگی پھیلانے والے ہزاروں عوامل کو کنٹرول کرنا اتنا مشکل نہیں۔ لاہور سمیت پنجاب کی فضا میں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے سے ماحول میں سموگ واضح ہونے لگی ہے جس سے نزلہ، زکام، کھانسی اور دیگر انفیکشنز پھیلنے کا خدشہ کافی بڑھ گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی ماحول اور صحت پر اثر انداز ہونے لگی ہے۔ گزشتہ دنوں ساہیوال میں 454 پرٹیکیولیٹ میٹرز کے ساتھ سب سے زیادہ فضائی آلودگی ریکارڈ کی گئی۔ رائیونڈ میں آلودگی 409، فیصل آباد میں 375، لاہور میں 336، گوجرانوالہ میں 246، بہاولپور میں237 اور مرید کے کی فضا میں 186 پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ ہوئی۔
پنجاب حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ لاہور کو سموگ سے بچانے کیلئے ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے جبکہ سموگ کے تدارک اور آگاہی کے لیے مختلف اداروں نے سائیکلنگ مہم میں حصہ لیا۔اب سموگ کے پیش نظر ان اداروں کا سٹاف ہفتے میں ایک دن سائیکل پر دفتر آئے گا۔ اگرچہ یہ اقدامات ماحول کو آلودگی سے بچانے کی ایک معمولی کاوش ہیں ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ ماحول کوصاف رکھنے کیلئے کسی بڑے فنڈ یا سرمایہ کاری کی نہیں بلکہ صرف صفائی اور پاکیزگی کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد ماحول کو صاف رکھیں اور احتیاط سے کام لیں تو نہ صرف دوسروں بلکہ اپنی زندگی کو بھی خوشگوار اورمحفوظ رکھ سکتے ہیں۔
لاہور کبھی سیاحت کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن اگر ہم نے آلودگی ختم نہ کی تو اپنی شہری زندگی کو لاحق خطرات کے ساتھ سیاح بھی ادھر کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے، اگر ہم اپنے ماحول کو صاف رکھیں گے تو ہمارے خوبصورت شہر دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنیں رہیں گے۔ اگر ہم سائیکلنگ کو پروموٹ کریں گے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں سے کنارہ کشی کریں گے تو اس سے نہ صرف پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے چھٹکارا ملے گا بلکہ انسانی صحت کیلئے بہترین ورزش کے ساتھ خوشگوار فضا بھی ملے گی۔ اسی طرح ہمیں گنجان آباد شہروں کے بجائے دوبارہ دیہی زندگی کے قدرتی اور فطری ماحول کی طرف لوٹنا ہو گا۔