ہمارے ہاں ایک روایت بن چکی ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے‘ وہ ملک یا صوبے میں رائج بلدیاتی نظام تبدیل کرنا اور اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ پرویز مشرف آئے تو انہوں نے برسوں سے رائج لوکل گورنمنٹ سسٹم کو تبدیل کر کے چیئرمینوں کی جگہ ناظموں والا نظام رائج کیا۔ عوام نے اس نظام کو بڑی حد تک پسند بھی کیا‘ اگر وقت کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کے اس نظام میں معمولی ترامیم کر کے مزید مؤثر بنایا جاتا تو یقینا اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا خواب کسی حد شرمندۂ تعبیر ہو سکتا تھا لیکن جب پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو بعد میں برسر اقتدار آنے والی جماعتوں نے اپنی مرضی و منشا کے مطابق مقامی حکومتوں کے نظام کو ایک بار پھر تبدیل کر دیا اور کچھ نئے اور کچھ پرانے نظام سے اپنے مطلب کی ترامیم کر کے دوبارہ چیئرمین لگا دیے۔ جب لوگوں کو اس نظام کی سمجھ آنا شروع ہوئی تو وفاق اور صوبوں میں حکومتیں تبدیل ہو گئیں۔ پنجاب میں ابھی بلدیاتی نمائندوں کی آئینی مدت باقی تھی لیکن پی ٹی آئی سرکار کو یہ بات کہاں پسند آ سکتی تھی کہ صوبے میں پچانوے فیصد سے زائد بلدیاتی نمائندے اپوزیشن جماعت (مسلم لیگ نون) سے ہوں۔ اس وقت مڈٹرم لوکل گورنمنٹ الیکشن کرانا مشکل تھا اور حالات بھی ایسے نہیں تھے کہ مقامی انتخابات کرائے جا سکتے کیونکہ دوبارہ اپوزیشن ہی کے جیتنے کا امکان تھا‘ اس لیے صوبائی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے بلدیاتی ادارے تحلیل کر کے ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر دیے۔ معاملہ عدالت میں گیا‘ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرڈیننس کالعدم قرار دیتے ہوئے بلدیاتی ادارے بحال کیے مگر صوبائی حکومت احکامات پر عمل درآمد میں لیت ولعل سے کام لیتی رہی، وقت یونہی گزرتا رہا اور اس کشمکش میں عوامی مینڈیٹ کے ہاتھ پائوں بندھے رہے۔ جب سپریم کورٹ میں اس حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو اس کے بعد پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے بحال کرکے انہیں اختیارات بھی منتقل کر دیے لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا کیونکہ صرف دو ماہ کے لیے بحالی پر بلدیاتی نمائندے زیادہ خوش نہ ہوئے اور انہوں نے محض رسمی انداز میں ہی اپنے دفاتر کے چارج سنبھالے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ چند ہفتوں بعد ان کی آئینی مدت پوری ہو رہی ہے۔ 2021ء کے آخری سورج کے ساتھ ان کے اقتدار کا سورج بھی ڈوب جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے بحالی پر زیادہ جشن نہیں منایا اور نہ ہی کوئی متحرک کردار نظر آیا؛ تاہم تبدیلی سرکار کو یہ چند ہفتوں کی بحالی بھی پسند نہ آئی اور اس نے دوبارہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں ترمیم کر دی۔
پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے نئے بلدیاتی نظام کے ترمیم شدہ مسودۂ قانون کی منظوری دی جس کے بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے پنجاب لوکل باڈیزآرڈیننس2021ء پر دستخط کر دیے۔ آرڈیننس پر دستخط کے بعد نئے نظام کے نفاذ کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔ گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ نیا بلدیاتی نظام عوام کوحقیقی معنوں میں بااختیار بنائے گا‘ وزیراعظم اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کاوعدہ پورا کر رہے ہیں‘ میئرزکو نئے نظام کے تحت اداروں کی سربراہی منتقل کر دی ہے‘ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر براہِ راست ہوں گے جس میں میٹرو پولیٹن کے میئرز اور ڈسٹرکٹ میئرز کو براہِ راست عوام منتخب کریں گے۔ پنجاب میں 11 میٹرو پولیٹن کارپوریشنز ہوں گی‘ 9 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے علاوہ گجرات اور سیالکوٹ کو میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا درجہ حاصل ہو گا۔ لاہور میں صرف میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہو گی، باقی ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز، گجرات اور سیالکوٹ میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ساتھ ڈسٹرکٹ کونسل بھی ہوں گی جبکہ پنجاب کے دیگر 25 اضلاع میں صرف ڈسٹرکٹ کونسلز ہوں گی۔ دیہی سطح پر ویلیج کونسل اور شہری علاقوں میں نیبر ہڈ کونسل کے انتخابات ہوں گے۔ بلدیاتی انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کو مشاورت کے ساتھ حتمی شکل دی گئی ہے، نیا نظام صوبے کے عوام کو حقیقی معنوں میں بااختیار بنائے گا۔
ادھر سندھ اسمبلی نے بھی بلدیاتی ترمیمی بل منظورکیا ہے جس کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے سخت احتجاج کیا۔ سپیکر سندھ اسمبلی نے رولنگ میں بلدیاتی بل متفقہ طور پر منظور ہونے کا اعلان کیا۔ قبل ازیں بل پرگورنر سندھ نے اعتراض کیا تھا۔ بلدیاتی ترمیمی بل کی مرحلہ وار منظوری کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے سپیکرکے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور بل نامنظورکے نعرے لگائے۔ ترمیمی بل کی شقوں کے مطابق کراچی سمیت سندھ کے 6 ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں ٹائون بنائے جائیں گے۔ ٹائونز اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمینوں کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوگا۔ کونسلز کے چیئرمینوں کو سیکرٹ بیلٹ سے منتخب کرانے کی شق واپس لے لی گئی۔ ترمیمی بل میں بلدیاتی کونسلوں کو 9 صوبائی محکموں کے امورکا اختیار دیا گیا ہے۔ سندھ پولیس کے امور میں منتخب بلدیاتی کونسلوں کو شامل کیا جائے گا۔ بل کے مطابق ایس ایس پی متعلقہ بلدیاتی چیئرمین سے رابطے کا پابند ہو گا، پولیس کے امور اور امن وامان سے متعلق پولیس افسران رپورٹ بلدیاتی کونسل کو دیں گے۔ پراسیکیوشن، پولیس ایڈمنسٹریشن اور کریمنل کیسز میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیار نہیں ہو گا۔ نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ٹائون سسٹم لایا گیا ہے، ہم نے سیکرٹ بیلٹ پر بھی اپوزیشن کی بات مان لی، کراچی واٹر بورڈ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ میں منتخب نمائندوں کو چیئرمین بنایا ہے۔ اپوزیشن کی 2 ترامیم آئی تھیں‘ جو شامل کر لی گئی ہیں، یہ قانون صوبے کی امنگوں کے عین مطابق ہے‘ ترامیم اب دوبارہ گورنر کو بھجوائیں گے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم نے سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف کل جماعتی کانفرنس بلائی‘ اس موقع پر ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ حکمران عدالتوں کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے، قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات بلدیاتی انتخابات سے مشروط ہونے چاہئیں۔ ہم اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے مگر اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ کل جماعتی کانفرنس میں شریک تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، فنکشنل لیگ اور اے این پی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے سندھ حکومت کی بلدیاتی قانون سازی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سات نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق ان سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی نئے بلدیاتی ایکٹ کی سفارشات مرتب کرکے اسمبلی کو بھیجے گی۔
یہاں یہ امرقابلِ ذکر ہے کہ جو جماعتیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مختلف اداروں کو بلدیاتی نمائندوں کے ماتحت کرنے کی حامی ہیں‘ وہی سندھ میں ایسی ترامیم کو عوام دشمن اور ریاست کے خلاف سازش تک قرار دے رہی ہیں‘ یعنی جہاں جہاں جس کا اختیار ہے‘ وہاں جو اقدام درست اور آئین کے عین مطابق ہے وہی اقدام مخالف فریق کی صوبائی حکومت کے لیے غلط ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ کسی کو بھی عام آدمی کے مسائل سے کوئی غرض نہیں‘ ہرکوئی اپنے اختیارات کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی محض ایک نعرہ بن کر رہ گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں ایک عام آدمی کی حکمرانوں تک رسائی ممکن نہیں اور صرف بلدیاتی نمائندے ہی عوام کی دہلیز پر انہیں مل سکتے ہیں لیکن اگر ہم بحیثیت مجموعی کسی ایک نظام کو چلنے نہیں دیں گے اور ہر آنے والی سرکار اپنی مرضی و منشا کے مطابق بلدیاتی نظام تبدیل کرتی رہے گی تو اس کے ثمرات کیسے حاصل کیے جا سکیں گے کیونکہ کسی بھی سسٹم کو سمجھنے، چلانے اور اس کوخامیوں سے پاک کرنے میں وقت لگتا ہے۔ اگر ہر حکومت نظام کی تبدیلی کو اپنا حق سمجھ کر تجربات کرتی رہے گی تو پھر عام آدمی کے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکیں گے۔