میری صحافتی زندگی میں تین انتہائی پریشان کن اور لرزہ خیز مواقع آئے، تینوں بار دل اتنا دکھی ہوا کہ اس کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ اور اس جیسے واقعات صرف میرے جیسے کمزور انسان کو ہی نہیں بلکہ ہر کسی کو رلا دینے والے اور موت یاد کرا دینے والے ہیں۔ کوئی جذبات سے عاری شخص ہی ہو گا جو ایسے واقعات کو دیکھنے یا سننے کے بعد بھی افسردہ نہ ہو۔
8 اکتوبر 2005ء کی صبح 8 بج کر 50 منٹ پر زلزلے کی صورت میں برپا ہونے والی قیامتِ صغریٰ آج بھی ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد ہے۔ اس وقت میڈیا کا ایسا دور نہیں آیا تھا‘ جس کی وجہ سے صحیح حالات و واقعات دو روز بعد ہی سامنے آ پائے۔ پھر آزادکشمیر سے سردار سکندر حیات کا رُلا دینے والا بیان بھی سننے کو ملا کہ ''میں تو اب قبرستان کا وزیراعظم رہ گیا ہوں‘‘۔ دو روز بعد مجھے دفتر سے حکم ملا کہ زلزلے کی رپورٹنگ کیلئے آزاد کشمیر جانا ہے۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا‘ اس لیے افطاری کا سامان گاڑی میں رکھ کر اگلی صبح ہم لوگ مظفرآباد روانہ ہو گئے۔ آزاد کشمیر پہنچے تو واقعی قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ سردار سکندر حیات کا بیان حقیقت دکھائی دے رہا تھا، ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں، تعفن پھیل رہا تھا، کوہالہ پل سے لے کر مظفر آباد شہر تک‘ نہ توکوئی پولیس اہلکار نظر آیا اور نہ ہی کوئی انتظامی افسر دکھائی دیا۔ پاکستانی یا کشمیری حکمران تو بہت دور کی بات‘ کوئی سیاسی یا عوامی نمائندہ بھی نظر نہ آیا۔ اس سانحے میں تقریباً 87 ہزار سے زائد افراد جاں بحق، 75 ہزار سے زائد زخمی اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھے، اس تباہی کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے خود اس قیامت کے مناظر دیکھ رکھے ہوں۔ کوئی عمارت، سڑک، گلی یا جگہ ایسی نہ تھی جہاں انسانی لاشوں کے ڈھیر نہ لگے ہوں، اس وقت تک کوئی امدادی ٹیم وہاں نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں۔ شام کو افطاری کا وقت قریب آیا تو گاڑی سے پانی لینے کیلئے سڑک کی جانب رخ کیا، ایک گاڑی مخالف سمت سے نمودار ہوئی اور ہمارے سامنے آ کر رکی۔ گاڑی سے اترنے والوں میں سے ایک راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے زاہد حسین کاظمی تھے اور دوسرے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین (موجودہ وزیراعظم) عمران خان تھے۔ زاہد کاظمی نے ہمارا تعارف خان صاحب سے کرایا تو وہ انٹرویو دینے پر آمادہ ہو گئے اور بتایا کہ وہ دو روز سے مسلسل سفر میں ہیں، راولپنڈی سے چلے، ایبٹ آباد اور بالاکوٹ سے ہوتے ہوئے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا خود سروے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ وہاں جب ایک سکول کی عمارت کے ملبے میں معصوم بچوں کی لاشیں، کتابیں، بستے اور لنچ بکس بکھرے دیکھے تو ہمت جواب دے گئی۔ اس وقت کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا میرے جیسے کمزور دل انسان کے بس کی بات نہیں۔ بس دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ایسے سانحات سے محفوظ رکھے۔
دوسرا سانحہ 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کا حملہ تھا‘ جس میں 150 افراد شہید ہوئے تھے، جن میں سے کم از کم 134 معصوم طالب علم تھے۔ اس وقت ملک بھر میں دہشت گردی کی ایک لہر چل رہی تھی اور مختلف شہروں میں دھماکوں اور خودکش حملوں کی خبریں آئے روز سننے کو ملتی تھیں لیکن یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس میں ہمارے دشمن نے حصولِ علم میں مشغول ننھے فرشتوں پر حملہ کیا اور تقریباً ڈیڑھ سو بے گناہوں کو شہید کر دیا۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد کسی ایک ہی سانحہ میں معصوم بچوں کی اتنی بڑی تعداد میں شہادت نے پوری قوم کو شدید سوگوار کر دیا۔ اس واقعے نے کئی روز تک افسردہ رکھا اور جب بھی کہیں سانحہ اے پی ایس کا تذکرہ ہوتا تو اعصاب جواب دے جاتے۔
تیسرا واقعہ جس نے مجھ پر لرزہ طاری کر دیا‘ اس کا سبب کوئی قدرتی آفت‘ دہشت گردی یا تخریب کاری نہیں تھی بلکہ پیر کی صبح ایک وٹس ایپ گروپ میں ملنے والا ایک میسج تھا جس میں ایک بچے کیلئے قبر کی اپیل کی گئی تھی۔ وہ میسج من و عن قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:
''10 سال کے بچے کے لیے اڈیالہ روڈ (راولپنڈی) پر قبر کی جگہ چاہیے۔ کل سے خوار ہو رہے ہیں‘ دوستوں سے اس حوالے سے مدد کی اپیل ہے۔ حاجی فلاں صاحب۔
یہ میسج دیکھا تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار حکمرانوں کے انتخابی نعرے، بلند بانگ دعوے اور فلاحی ریاست کے سیاسی بیانات کانوں میں گونجنے لگے۔ یقین کریں کہ نظریں اس میسج پر جم گئیں اور سکتہ سا طاری ہو گیا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا واقعی ہم اس نئے پاکستان میں رہ رہے ہیں جسے ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی مملکت بنایا جا رہا ہے۔ جس میں اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے لوگوں کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا وعدہ کیا تھا۔
سوچا کہ ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینا کوئی آسان کام تو ہے نہیں‘ اس کیلئے پہلے ایک کروڑ اسامیاں پیدا کرنا ہوں گی اور محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اس منصوبے پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔ اپنے تین سالہ دورِ اقتدار میں ساٹھ‘ ستر لاکھ لوگوں کو مختلف سرکاری و نجی ملازمتوں سے فارغ کیا جا چکا ہے اور اس حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے تک ایک کروڑ تو کیا‘ شاید اس سے بھی زائد لوگ فارغ ہو چکے ہوں گے اور نئے لوگوں کیلئے ایک کروڑ اسامیاں خالی ہو چکی ہوں گی۔ پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ بھی راتوں رات تو نہیں بن سکتا، اس کیلئے عوام کو کم ازکم تین‘ چار پنج سالہ ادوار تو حکومت کو دینا ہوں گے۔ اس ساری سوچ میں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ پہلے ستر برسوں میں تو کبھی ایسا واقعہ میری نظر سے نہیں گزرا تھا کہ ایک بچہ انتقال کر جائے اور دو روز تک اس کی قبر کیلئے جگہ نہ مل سکے۔
دن بھر پریشان رہا اور پھر شام کو میسج شیئر کرنے والے حاجی صاحب کو فون کر کے پوچھا کہ بچے کی قبر کیلئے جگہ ملی یا نہیں؟ انہوں نے افسردگی سے بتایا کہ قبر کا بندوبست ہو گیا ہے لیکن تفصیل بعد میں بتائوں گا۔ منگل کی صبح ان کا میسج آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ مذکورہ بچہ تھیلیسیمیا کا مریض تھا، اس کے والدین بچے کے علاج کی غرض سے چھ ماہ قبل اپنا سب کچھ بیچ کر لاہور سے راولپنڈی شفٹ ہوئے تھے‘ بچے کے علاج پر والدین کا تقریباً تیس لاکھ روپے کا خرچہ ہوا اور سارا کاروبار بھی ختم ہو گیا۔ بچہ بہت ذہین تھا اور قرآنِ پاک حفظ کر رہا تھا۔ چند روز قبل اس کا لیور ٹرانسپلانٹ کا آپریشن ہوا جو اس کی چھوٹی بہن نے عطیہ کیا تھا لیکن اتوار کی شام کو بچہ خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ بچے کے والدین اور عزیز و اقارب نے ڈھوک پہاڑیاں سمیت کئی قبرستانوں میں بچے کی قبر کیلئے کوشش کی لیکن کہیں بھی جگہ نہ مل سکی، سوشل میڈیا پر بھی مدد کی اپیل کی، اس پر کئی دور دراز دیہات سے قبر کی پیشکش آئی لیکن اتنی دور بچے کی تدفین والدین کیلئے مشکل فیصلہ تھا، پھر ثمر زار کے قبرستان گئے تو وہاں پہلے ہی ایک قبر کیلئے تین جگہ کھدائی ہو چکی تھی اور تینوں جگہ پر نیچے سے پرانی قبر نکل آئی۔ آخر کار دو روز بعد‘ علی ٹائون کے قبرستان میں بچے کی تدفین کیلئے قبر مل سکی لیکن اس کیلئے ورثا کو کتنی تکلیف اور کرب سے گزرنا پڑا‘ یہ انتہائی دردناک کہانی ہے۔
وزیراعظم عمران خان صاحب کو کوئی بتائے کہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں والے منصوبے تو خدا جانے کب حقیقت کا روپ دھاریں گے، فی الحال تو قبر بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے، غریبوں کی قبروں کا ہی کچھ بندوبست کر دیں کہ اب تو قبر کا حصول بھی انتہائی مشکل ہو چکا ہے ۔ ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے صرف نعروں سے کام نہیں چلے گا بلکہ وزیراعظم عمران خان کو 2005ء والے جذبے سے کام کرنا ہو گا۔