کورونا وائرس نے دنیا بھر میں بڑی تباہی مچائی لیکن اللہ پاک نے وطن عزیز پاکستان کو اس وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں جانی نقصان بہت کم ہوا جس کا کریڈٹ ہماری حکومت سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمیں اس وبا سے قدرت نے محفوظ رکھا وگرنہ اس میں نہ تو حکومت کا کوئی کارنامہ ہے اور نہ ہی ہمارے عوام نے کوئی کسر چھوڑی۔ کورونا کی پہلی لہر کے دوران شدید خوف و ہراس کی فضا قائم ہوئی جس کے بعد لوگوں نے ''ففٹی ففٹی‘‘ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا شروع کیا لیکن جب حکومت نے پہلی بار لاک ڈائون ختم کیا تو الّا ماشاء اللہ پوری قوم نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کو یکسر نظر انداز کردیا۔ بار بار ہاتھ دھونے، فیس ماسک، سماجی فاصلے اور سینی ٹائزر کے استعمال سمیت احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد ترک کر دیا گیا۔ بازار، بس اڈے، پبلک پارکس، سیاسی اجتماعات اور جلسے‘ جلوسوں سمیت کہیں بھی کورونا ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا جبکہ حکمران یہی کہتے رہے کہ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے لہٰذا ہم کاروبار بند نہیں کر سکتے۔ حکومت نے یہ فیصلہ یقینا سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا لیکن ایک بات اب تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس وائرس کی گزشتہ چاروں لہروں کے دوران کمزور معیشت کے نام پر بازار اور کاروبار کو بند کرنے سے گزیر کیا گیا مگر جب بھی کہیں وائرس کے اثرات ملے تو تعلیم و کھیل کی سرگرمیوں پر فوری پابندی عائد کر دی گئی۔ آج کل جب پاکستان میں کورونا وبا کی پانچویں لہر چل رہی ہے اور عالمی وبا کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں تو تعلیمی اداروں کا مستقبل ایک بار پھر دائو پر لگا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا سے اگر پاکستان میں کوئی نقصان ہوا ہے تو سب سے زیادہ تعلیمی شعبے کا ہوا ہے۔ ہمارے بچوں کے انتہائی قیمتی دو سال ضائع ہو گئے۔ ہمارا امتحانی نظام بھی شدید متاثر ہوا، کئی ذہین بچے میڈیکل کالجوں اور جامعات میں داخلوں سے محروم ہو گئے جبکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار درجنوں بچوں نے میٹرک اور انٹر میڈیٹ امتحانات میں پورے پورے نمبر حاصل کر کے ایسا ریکارڈ قائم کیا جو کووِڈ کے دوران اپنائے گئے امتحانی فارمولے پر ہمیشہ سوالیہ نشان کی حیثیت سے برقرار رہے گا۔
آج کل پاکستان میں کورونا وائرس کے اعداد و شمار کودیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں لہر کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس بار بھی حکومت نے سب سے پہلے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے یا بند کرنے پر غور کرنا شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے پہلی بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں فی الحال تعلیمی ادارے بند نہ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وزیر تعلیم پنجاب مراد راس کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں چھٹیوں سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، ویکسی نیشن کے بغیر اب بچے سکولوں میں نہیں آ سکتے۔ این سی او سی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے بتایا کہ سکولوں میں کورونا ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد کروایا جا رہا ہے، 12 سال سے کم عمر بچوں کی سکولوں میں حاضری 50 فیصد کرنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ سکولوں کے بچوں کی اکثریت کو کورونا ویکسین لگا دی گئی ہے، کورونا کے پھیلائو کی سب سے بڑی وجہ سماجی سرگرمیاں ہیں۔ دوسری جانب منگل کے روز نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کا دوسرا اہم اجلاس ہوا تو اس میں بھی تعلیمی اداروں کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا‘ اجلاس میں نئی بندشوں کے حوالے سے مختلف تجاویز زیر غور آئیں جن میں سے ایک تجویز تعلیمی اداروں کو ہفتے میں 3 دن کھولنے اور اسلام آباد میں 7 روز کے لیے سکولوں کو آن لائن کرنے کی تھی۔ اجلاس میں تعلیمی اداروں میں جاری ٹیسٹنگ پر بھی بریفنگ دی گئی اور ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے والے تعلیمی اداروں کو سیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس و ٹیچرز کی لازمی ویکسی نیشن کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا۔ علاوہ ازیں این سی او سی نے ملک بھر میں 10 فیصد یا اس سے زیادہ کورونا کیسز والے علاقوں کے لیے نئے ایس او پیز لاگو کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، صوبوں کی مشاورت سے نئے ایس او پیز کو حتمی شکل دی جائے گی، سمارٹ لاک ڈائون یا ایک دن چھوڑ کر سکول کھولنے جیسے فیصلے صوبوں کی مشاورت سے ہوں گے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر میں وفاقی وزیر اسد عمر کے زیرِ صدارت اجلاس میں صوبائی وزرائے تعلیم اور وزرائے صحت بھی شامل تھے۔ اجلاس میں کورونا کا پھیلائو روکنے کیلئے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کرانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کورونا کی حالیہ صورتحال بالخصوص اومیکرون کی موجودہ لہر کے دوران تعلیمی سرگرمیوں پر بھی غور کیا گیا۔ کہا گیا ہے کہ تمام صورتحال سے متعلق فیصلے صوبوں کی مشاوت سے کیے جائیں گے۔ وزیر صحت نے اجلاس میں پنجاب میں کورونا کی صورتحال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ سکولوں اورکالج کے 80 فیصد طلبہ کو ویکسی نیٹ کر دیا گیا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ تعلیمی ادارے بند ہوں کیونکہ پہلے ہی تعلیم کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ پنجاب میں کورونا کی صورتحال قابومیں ہے، صوبے کی 57 فیصد آبادی (4کروڑ 60 لاکھ سے زائد) کو مکمل ویکسی نیٹ کر چکے ہیں۔ ''ریچ ایوری ڈور‘‘ ویکسی نیشن مہم میں 1 کروڑ 40 لاکھ آبادی کو ویکسین لگائی گئی ہے، عوام کوروناسے بچائو کیلئے ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں، اومیکرون ویری اینٹ کی شدت زیادہ ہونے کے باعث محکمۂ صحت اقدامات کر رہا ہے۔
ایک طرف صوبائی وزیر صحت کہہ رہی ہیں کہ پنجاب میں صورتحال قابو میں ہے جبکہ دوسری جانب سوشل میڈیا کے دانشوروں نے ملک میں کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح میں اضافے کی وجہ سے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے تعلیمی ادارے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان دِنوں شفقت محمود صاحب ایک بار پھر سے ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہیں۔ ٹویٹر پر موجود طلبہ اور دیگر صارفین کی جانب سے ملک بھر میں سکول بند کرکے آن لائن کلاسز منعقد کرانے کی درخواست کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ سکول میں ایک کلاس روم میں کافی تعداد میں بچے ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں اور چھوٹے بچوں کی ابھی کورونا ویکسی نیشن بھی نہیں ہوئی لہٰذا موجودہ صورتحال بچوں کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ درحقیقت تعلیمی ادارے بند کرنے کا مطالبہ صرف سوشل میڈیائی دانشوروں کی جانب سے ہی سامنے آ رہا ہے جبکہ سنجیدہ حلقے تعلیمی اداروں کی بندش کے حق میں نہیں کیونکہ ماہرینِ تعلیم، والدین اور خود بچے بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کورونا کے سبب پہلے ہی ان کا بہت تعلیمی نقصان ہو چکا ہے، ویسے بھی پاکستان میں ابھی تک آن لائن نظامِ تعلیم زیادہ مؤثر نہیں۔ چند ایک بڑے اداروں کے سوا نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے پاس آن لائن تعلیم کا جدید نظام موجود نہیں اور نہ ہی ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے جس سے طلبہ و طالبات گھر بیٹھے تدریسی عمل سے استفادہ کر سکیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر گنجان آباد بازاروں، پبلک ٹرانسپورٹ، ٹرینوں اور دیگر اجتماعات کی اجازت اگر دی جا سکتی ہے تو پھر ایس او پیز کے تحت تعلیمی سلسلے کو جاری کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ جس طرح ہماری کمزور معیشت لاک ڈائون کی متحمل نہیں ہو سکتی اسی طرح ہمارا تعلیمی نظام بھی کورونا وائرس کے باعث بندشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ کورونا کی گزشتہ لہروں کے سبب پہلے ہی خاصا متاثر ہو چکا ہے اور اگر اب تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند کر دیے گئے تو تمام بچوں کو بالعموم اور انٹرمیڈیٹ سٹوڈنٹس کو بالخصوص ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ان طلبہ وطالبات کی میٹرک کی تعلیم بھی خاصی متاثر رہی اور اگر اب کالج میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو یہ معیشت کی تباہی سے زیادہ بڑا نقصان ہو گا لہٰذا ہم نے 'تعلیم کو بچانا ہے‘ اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے قوم کے شاہینوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ویکسی نیشن کے عمل کو تیز کرے، تعلیمی اداروں کو اس حوالے سے بالخصوص ٹارگٹ کیا جائے تاکہ تمام اساتذہ اور بچوں کو ویکسین لگائی جا سکے، نیز عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات پر سو فیصد عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔