افغان جنگ سے قبل پاکستان خاصا پُرامن ملک تھا لیکن نائن الیون کے بعد امریکا نے ہمارے ہمسایہ برادر ملک افغانستان پر یلغار کر دی۔ اس جنگ کا مقصد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا۔ امریکی فورسز اسامہ کو تو وہاں گرفتار نہ کر سکیں؛ تاہم چند ہفتوں کی لڑائی کے بعد طالبان حکومت کو شکست دینے یا یوں کہہ لیں کہ پسپا کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں وسیع جنگ تو نہیں ہوئی؛تاہم حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ طالبان نے دشمن کے خلاف گوریلا کارروائیاں جاری رکھیں جن سے نمٹنے کے لیے نیٹو فورسز وہاں موجود رہیں۔ یہ لڑائی 2021ء تک جاری رہی۔ اس دوران پاکستان بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا جبکہ دوسری طرف پاکستان سمیت بعض مسلم ممالک کے تعاون سے امریکا اور طالبان قیادت کے مابین مذاکرات بھی ہوتے رہے اور آخرکار 29 فروری 2020ء کو امریکا اور طالبان کے مابین ایک معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے توسط سے امریکی اور نیٹو افواج کے تمام فوجیوں کے انخلا کی طالبان کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی صورت میں ضمانت دی گئی اور اس کے لیے 14 ماہ کا ٹائم فریم طے پایا۔ دراصل اتحادی افواج کو افغانستان میں بدترین شکست ہو چکی تھی اور طالبان سے معاہدے کا مقصد امریکا اور نیٹو افواج کو باعزت راستہ فراہم کرنا تھا۔ امریکی فورسز باوقار انخلا کی ضمانت ملتے ہی رات کے اندھیرے میں کابل سے نکل گئیں۔ اس صورتحال میں طالبان نے بہت تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور بہت سے صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد 15 اگست کو کابل کے صدارتی محل تک جا پہنچے۔ طالبان کی افغان دارالحکومت میں تیزی سے پیش قدمی کی اطلاعات ملتے ہی افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے اور طالبان نے صدارتی محل پر بھی قبضہ کر لیا۔
2003ء تک پاکستان میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی، مجموعی طور پر سال بھر میں 164 غیر طبعی اموات ہوئیں جو 2009ء میں 3318 تک جا پہنچیں۔ پاکستان میں دہشت گردی سے تمام صوبے متاثر ہوئے؛ تاہم سب سے زیادہ واقعات کراچی شہر، بلوچستان اور ملک کے شمال مغربی علاقوں میں پیش آئے۔ پاک افغان سرحدی علاقہ اس دوران خصوصی طور پر دہشت گردوں کا مرکز بنا رہا۔ 2001ء سے 2011ء کے دوران‘ ایک دہائی کے عرصے میں 35 ہزار پاکستانی شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 80 ہزار شہری بشمول دس ہزار فوجی افسران و اہلکار شہید ہوئے جبکہ ہماری معیشت کو لگ بھگ 125ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کے دوران پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف متعدد چھوٹے بڑے آپریشنز کیے گئے؛ تاہم ہر بار یہ دہشت گرد افغانستان بھاگ جاتے تھے۔ اس صورتحال میں افواجِ پاکستان نے انٹیلی جنس معلومات پر ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے کٹھن کام کا آغاز کیا جس سے دشمن کی نقل و حرکت محدود ہو گئی اور ملک میں بڑی حد تک امن قائم ہوگیا؛ تاہم بلوچستان کے راستے دہشت گردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ کسی طور جاری رہا اور اِکا دُکا واقعات پیش آتے رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2019 ء کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے 229 حملوں میں 357 افراد ہلاک اور 729 زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات خیبر پختونخوا میں پیش آئے؛ تاہم 2020ء میں دہشت گردی کے واقعات میں مزید 36 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ اموات کی تعداد میں بھی تقریباً 38 فیصد کمی دیکھنے کو ملی۔
ستمبر 2021ء میں افغانستان میں طالبان نے اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کیا تو کئی دہشت گرد گروپ وہاں سے بھاگ نکلے اور دوباری سرحدی علاقوں میں جمع ہونے لگے۔ 2020 ء کے مقابلے میں پاکستان میں2021ء میں دہشت گردانہ حملوں میں 56 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 300 کے لگ بھگ حملوں میں 395 افراد ہلاک ہوئے جن میں 186 سویلینز جبکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے 192 اہلکار شہید ہوئے۔ پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی کارروائیوں میں 188 دہشت گرد مارے گئے۔ اسی دوران کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں میں نئی صف بندی ہوئی اور امن دشمن عناصر نے مل کر وطن عزیز میں دوبارہ چھوٹے موٹے حملے شروع کر دیے۔ بیچ میں طالبان حکومت کی درخواست پر ایک بار ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا اور ایک معاہدہ طے پایا جو ایک ماہ ہی چل سکا اور مدت پوری ہونے پر کالعدم ٹی ٹی پی نے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب سکیورٹی فورسز نے دوبارہ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع کیچ میں سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پرحملہ کیا جس میں پاک فوج کے 10 جوان مادرِ وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے جبکہ ایک دہشت گرد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ کلیئرنس آپریشن کے دوران 3 دہشت گرد گرفتار بھی کیے گئے۔ ہماری بہادر افواج دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط طویل جنگ کے بعد اب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور معلومات اکٹھی کرنے کے نظام میں کافی بہتر آئی ہے لیکن آئندہ دو ماہ تک ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے؛ تاہم جلد ہی دہشت گردی کی اس تازہ لہر پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری طرح چوکس اور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں‘ نیز امن دشمن دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔ پنجاب اور سندھ میں سی ٹی ڈی جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں یہ ذمہ داری ایف سی اور فوج کے پاس ہے۔ بلاشبہ افواجِ پاکستان مہارت اور جذبے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ہماری بہادر سکیورٹی فورسز نے لازوال قربانیوں کے بعد ملک میں امن و امان قائم کیا اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا مگر جب انسانیت دشمنوں کیلئے سرزمین پاک کے بعد افغان دھرتی بھی تنگ ہو گئی اور ہر طرف موت کا راستہ بچا تو ایسی صورتحال میں ہمارا ازلی دشمن سرگرم ہوا اور مختلف دہشت گرد تنظیموں کو ایک فورم پر جمع کر کے انہیں دوبارہ منظم کر دیالیکن ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر اور بھروسہ ہے کہ وہ اللہ پاک کی نصرت سے ان مٹھی بھر دشمنوں کا بھی جلد صفایا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی اورایک بار پھر وطن عزیز میں امن و امان قائم ہو جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان (حزب اقتدار و اختلاف) اس نازک گھڑی میں دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر مشترکہ بیانیہ جاری کریں اور جس طرح ہماری قوم قدم قدم پر افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے‘ تمام سیاستدان بھی یک زبان ہوکر ملک دشمنوں کو سخت پیغام دیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن پاک دھرتی کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے اور یہاں امن و امان کا قیام ہماری بنیادی ضرورت۔ میں یہاں مکمل غیر سیاسی بات کرتے ہوئے قوم سے اپیل کروں گا کہ ہمیں 'یوم پاکستان‘ کے موقع پر دنیا کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات پاک سرزمین کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ یہ ملک ہو گا‘ یہاں امن ہو گا تو سیاست بھی چلتی رہے گی اور حکومتیں بھی آتی‘ جاتی رہیں گی۔ اگر خدا نخواستہ دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل گیا تو پھر حکومت اور اپوزیشن‘ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔