وطن عزیز میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر سر اٹھانے لگی ہے اور بلوچستان اس کا خصوصی طور پر نشانہ بن رہا ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا دائرہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک محدود ہے اور وہاں بھی یہ انسانیت دشمن کبھی کامیاب نہ ہو پاتے اگر انہیں بعض اندرونی عناصر کی حمایت میسر نہ ہوتی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہماری سکیورٹی فورسز چاق و چوبند اور دہشت گردی سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں، سکیورٹی فورسز اور دیگر قومی اداروں نے مل کر پہلے بھی نہ صرف دہشت گردوں کو شکست دی بلکہ ایسے عناصر کو افغانستان، بھارت اور دیگر ملکوں میں بھاگنے پر مجبور کر دیا‘ ان شاء اللہ اب بھی بہت جلد ان کا قلع قمع کر دیاجائے گا لیکن اس سے پہلے ہمیں خبردار اور ہوشیار رہنا ہو گا۔ ہمیں اپنی صفوں میں مکمل اتحاد پیدا کرنا ہو گا اور تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کالعدم بلوچ تنظیموں اور دیگر عسکریت پسند گروپس کے گٹھ جوڑ کا اشارہ دیا اور بتایا ہے کہ 11 جنوری کو کالعدم تنظیموں نے مل کر بی این اے بنائی جسے پسِ پردہ کالعدم تحریک طالبان (ٹی ایل پی) سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کی سپورٹ حاصل ہے، علاوہ ازیں داعش بھی ان کے ساتھ موجود ہے‘ ان کے علاوہ بھی کچھ عسکری تنظیمیں ہیں جو دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کے بھارت سے روابط ہیں اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں ان کے کیمپ ہیں‘ جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ اب چونکہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ان گروپوں کے لیے وہاں کافی مشکلات پیدا ہو چکی ہیں جبکہ وہاں ان کے آپس میں جھگڑے بھی ہو رہے ہیں لہٰذا یہ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق ان میں سے کچھ واپس پاکستان آ گئے ہیں جبکہ کچھ سرحدی علاقوں اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں روپوش ہیں۔ بھارت جو اس ساری صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا اور جس نے پاک افغان سرحدی علاقوں پر اپنے کئی مراکز اور خفیہ ٹھکانے بنا رکھے ہیں‘ دوبارہ سرگرم ہو گیا ہے۔ بھارت نے اپنے پیسے کے ذریعے مختلف تنظیموں کے اتحاد میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جبکہ داعش جیسی تنظیموں کی معاونت بھی ان گروپوں کو فراہم کی ہے۔ اگرچہ مقامی بلوچوں کی حب الوطنی پر ہرگز شک نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اندرونی عناصر بھارت، اسرائیل اور دیگر دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جو ہمارے لیے مسئلہ پیدا کرتا ہے کیونکہ ہماری بہادر فورسز دشمن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی حفاظت کو ہمیشہ اولین ترجیح دیتی ہیں لیکن یہ عارضی مشکلات وہیں پیدا ہوتی ہیں جہاں اندرونی عناصر چند ٹکوں کی خاطر بِک جائیں۔ اس سے قبل آپریشن رد الفساد بھی ایسے ہی عناصر کے خلاف تھا جو ملک دشمنوں کا آلہ کار بن کر اپنی مادرِ وطن کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین انٹیلی جنس سسٹم موجود ہے اور ایسے وطن دشمن عناصر زیادہ عرصے تک چھپے نہیں رہ سکتے اور ان شاء اللہ بہت جلد شکنجے میں آ جائیں گے لیکن اس وقت تک ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں پنجگور اور نوشکی حملوں کے بعد وزارتِ داخلہ نے الرٹ جاری کر دیا ہے، چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کی پولیس اور سکیورٹی اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ساتھ ہی وزارتِ داخلہ نے تعریف کی ہے کہ ایف سی کی مستعدی بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کو ناکام بنانے میں اہم رہی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کالعدم تنظیموں اور دیگر عسکریت پسندوں کے گٹھ جوڑ کا جو اشارہ دیا ہے اس کی تصدیق مشیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔ بہرکیف نوشکی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے جس میں ایک سویلین کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاع ملی ہے۔ مشیر داخلہ نے بتایا کہ اس ماہ ہمیں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے تھریٹس ملے تھے، دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان سے سپورٹ مل رہی ہے۔ حملہ آور کون تھے‘ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، بہت جلد سب چیزیں سامنے آجائیں گی۔ ادھر پنجگور میں چتکان بازار سے 2 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ پولیس کے مطابق ایک لاش کی شناخت ہو گئی ہے جبکہ دوسری کی شناخت نہیں ہو سکی۔ مرنے والے افراد کے سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جاری کردہ بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ پنجگور اور نوشکی کے آپریشنز کے دوران مجموعی طور پر 20 دہشت گرد ہلاک جبکہ پاک فوج کے ایک افسر سمیت 9 فوجی شہید ہو ئے۔ دہشت گردوں نے پنجگور اور نوشکی میں سکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر حملے کیے تھے جن کو فورسز نے کامیاب جوابی کارروائی سے پسپا کر دیا؛ تاہم سکیورٹی فورسز نے گرد و نواح میں چھپے دہشت گردوں کی تلاش کے لیے کلیئرنس آپریشن کیا جس میں فرار ہونے والے دہشت گرد بھی مارے گئے۔ چار مفرور دہشت گردوں کو بازار میں گھسنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا تھا اور یہ آپریشن 72 گھنٹے تک جاری رہا۔ ہتھیار نہ ڈالنے پر بالآخر چاروں دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں حملوں سے تعلق پرکیچ کے علاقے بالگتر میں ایک عارضی پناہ گاہ پر کلیئرنس آپریشن کیا گیا جس میں تین دہشت گرد مارے گئے ، جن میں 2 اہم کمانڈر بھی شامل تھے۔ دریں اثنا سکیورٹی فورسزنے وزیرستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا اور 2 دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ برقع پہن کر فرار ہونے کی کوشش کرنے والے ایک مطلوب دہشت گرد کو گرفتار کر لیا۔ علاوہ ازیں بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود بھی قبضے میں لیا گیا۔ ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ سکیورٹی فورسز ہر قیمت پر اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پُرعزم ہیں۔
ادھر محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں بائی پاس کے قریب سے 2 مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے جن کا تعلق داعش سے بتایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی سے بھی القاعدہ کا ایک دہشت گرد گرفتار ہوا ہے۔ بچے کھچے اور سکیورٹی فورسز کے خوف سے چھپے ہوئے مٹھی بھر دہشت گرد عناصر اپنے خلاف گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر بائولے ہو چکے ہیں لہٰذا اب وہ ملک میں کسی بھی جگہ پر کوئی بزدلانہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ادارے تو مستعد ہیں ہی لیکن عوام کو بھی اپنی حفاظت کے لیے خبردار رہنا ہو گا۔ خوش آئند بات یہ ہے وزیراعظم عمران خان، صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت حزب اقتدار و اختلاف کے تمام رہنمائوں نے ان دہشت گرد حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور سکیورٹی فورسز پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے؛ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم سیاسی بیانات سے آگے بڑھ کر کچھ کریں۔ تمام تر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر حکومت و اپوزیشن کو ایک میز پر بیٹھ کر قومی لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایسا نازک موقع ہے کہ اگر ہم نے سستی کا مظاہرہ کیا یا سیاسی اختلافات کے باعث قومی مفاد کو ترجیح نہ دی تو خدا نخواستہ یہ مٹھی بھر دہشت گرد پھر سے منظم اور مضبوط ہو سکتے ہیں لہٰذا ہمیں خبردار اور ہوشیار رہتے ہوئے متحد ہونا پڑے گا کیونکہ ملک میں امن ہو گا تو سیاست بھی ہوتی رہے گی اور کاروبارِ زیست چلتا رہے گا اور اگر خدا نخواستہ امن و امان کا مسئلہ دوبارہ پیدا ہوا تو ملک ایک دہائی پیچھے چلا جائے گا۔ جو امن ہم نے اتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے‘ ہمیں بہرطور ا س کا تحفظ یقینی بنانا ہو گا۔