سیاست دانوں کو تنقید تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہے۔ ہر دور میں اور ہر جماعت کے سیاسی رہنمائوں پر تنقید ہوتی رہی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی رکنے والا نہیں کیونکہ ہمارے سیاست دان انتخابات سے پہلے اپنے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اتنے بڑے بڑے دعوے کرتے اور عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں کہ ایک عام ووٹر ان بلند بانگ دعووں اور پُرکشش نعروں کے جھانسے میں آکر انہیں ووٹ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن عوامی رہنما ہونے کے یہی دعویدار الیکشن جیتنے کے بعد اپنے دعوے، وعدے اور نعرے‘ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اگر انتخابات میں ہار جائیں تو یہ کہہ کر ووٹروں سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ ہم تو ہار گئے ہیں لہٰذا اب آپ لوگ منتخب نمائندے کے پاس جائیں۔ دوسری جانب جو الیکشن جیت کر مقتدر ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں‘ وہ پھر عام آدمی کی پہنچ سے ہی باہر ہو جاتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران جو سیاست دان امیر و غریب کی تفریق کیے بغیر ہر گلی محلے میں جانا ضروری سمجھتا ہے‘ جو علاقے کے سب سے غریب ووٹر کو بھی گلے لگا کر اور دستر خوان پر ساتھ بٹھا کر اپنی عوامی سیاست اور خدمت کایقین دلاتا ہے‘ ووٹ لینے اور اسمبلی میں پہنچ جانے کے بعد وہی لیڈر سکیورٹی کے نام پر اپنے ڈیرے پر ووٹروں کا داخلہ بند کر دیتا ہے۔ الیکشن کے فوری بعد عوام سے راہیں جدا کرکے اپنی ترجیحات بدل لی جاتی ہیں۔ انتخابات میں کیے گئے وعدے بھلا کر کبھی فنڈز کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے تو کبھی کوئی دوسرا بہانہ اس ادا سے بیان کیا جاتا ہے کہ ووٹر اپنا حق مانگنے کے بجائے الٹا ان کے دفاع میں لگ جاتا ہے۔
جو سیاست دان اچھے کام کرتے ہیں، اپنے انتخابی وعدے پورے کرتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے اپنے علاقے یا حلقے کی تعمیر و ترقی پر توجہ دیتے ہیں‘ لوگ ہمیشہ ان پر پھول نچھاور کرتے ہیں، ان کے نعرے لگاتے ہیں اور گیت گاتے ہیں لیکن جو اقتدار میں آکر عوامی مسائل و مشکلات کو فراموش کر دیتے ہیں‘ انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی سربراہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے سب سے بڑے حامی تھے‘ ان کی دو دہائیوں پر مشتمل سیاسی جدوجہد میں میڈیا کا بڑا مثبت کردار رہا ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو خان صاحب جب تک اپوزیشن میں تھے یا اقتدار میں نہیں آئے تھے‘ وہ سابق حکمرانوں اور اپنے سیاسی مخالفین پر سخت تنقید کرتے تھے اور ان کے لیے سخت الفاظ استعمال کرتے تھے۔ اس لیے سب یہی سمجھتے تھے کہ جب بھی عمران خان خود حکومت میں آئیں گے‘ ان کا دور میڈیا کے لیے سنہری دور ہو گا لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور میں مہنگائی اور بیروزگاری کا جن بے قابو ہے‘ عوامی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور تو اور میڈیا کا بھی شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ جب معاشی حالات دگرگوں ہوں تو عوامی تنقید اور ردعمل تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔
جیسے پہلے کہا کہ سیاست دانوں پر تنقید ہر دور میں ہوتی رہی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ حکومتوں کو قدرے زیادہ تنقید کا سامنا رہا لیکن سابق حکمرانوں نے بادل نخواستہ تنقید کو برداشت کیا مگر سب توقعات کے برعکس موجودہ حکومت تنقید کو برداشت نہیں کر سکی اور ''پیکا ترمیمی آرڈیننس‘‘ لے آئی جس کے حوالے سے بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے۔ پہلے تو اس قانون کی تشریح واضح نہیں، دوسرا‘ اس پر عمل درآمد میں اختیارات کے غلط استعمال کا احتمال زیادہ ہے‘ یہی وجہ ہے جہاں دیگر سیاسی، سماجی اور وکلا تنظیموں نے اسے مسترد کیا ہے‘ وہیں اہلِ صحافت بھی اس آرڈیننس کو قبول کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ بعض میڈیا پرسنز کی جانب سے اس آرڈیننس کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ہے جس کی سماعت گزشتہ روز چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ عدالت عالیہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پٹیشن پر پیکا ایکٹ سیکشن 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا ہے۔ اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ 17 فروری کو سینیٹ کا اجلاس ختم ہوا، 18 فروری کو قومی اسمبلی کا شیڈول تھا، اجلاس کو اس لیے ختم کیا گیا کہ آرڈیننس لایا جا سکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ سیکشن 20 میں کیا ترمیم کی گئی ہے؟ جس پر حکومتی وکیل نے بتایا کہ سزا تین سال سے پانچ سال کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک فِگر کے لیے تو ہتک عزت کا قانون ہونا ہی نہیں چاہیے، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ جو خود کو پبلک فِگر کہتا ہے وہ تنقید سے نہ گھبرائے۔ عدالت نے پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت گرفتاریوں سے روکتے ہوئے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا اور کہاکہ ایف آئی اے پہلے ہی ایس او پیز جمع کرا چکی ہے، ایس او پیزکے مطابق سیکشن 20 کے تحت کسی شکایت پر گرفتاری عمل میں نہ لائی جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ ذمہ دار ہوں گے۔ عدالت عالیہ نے مثال دی کہ زمبابوے، یوگنڈا اور کانگو تک بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال رہے ہیں۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے تسلیم کیا کہ میڈیا میں یہ خدشات ہیں کہ حکومت کے خلاف کسی بھی خبر پر انہیں قابل گرفت قرار دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم صاحب کو ملاقات کے دوران ان خدشات سے آگاہ کیا تھا کہ معاشرے میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر اس آرڈیننس پر موجودہ شکل میں عمل درآمد کیا گیا تو اس کے حکومت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بقول ان کے‘ وزیراعظم صاحب نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسی خبریں یا تجزیے‘ جس میں حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے‘ اس قانون کے تحت قابلِ گرفت نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ جب پیکا ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا تو وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور ان کے قریبی افراد کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی گئیں، کچھ لوگ جو صحافی نہیں ہیں‘ وہ صحافی بنے ہوئے ہیں، فیک نیوز کو روکنے کے لیے قانون ضروری تھا۔ آرڈیننس کے مطابق کوئی بھی دانستہ طور پر عوامی سطح پر انفارمیشن سسٹم کے ذریعے ایسی معلومات نشر کرے‘ جو غلط ہو اور اس سے کسی شخص کی ساکھ یا نجی زندگی کو نقصان پہنچے تو اس کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے۔
کوئی حکومتی عمائدین‘ وزیروں اور مشیروں کو بتائے کہ آپ لوگوں نے بھی سدا ایوانِ اقتدار میں نہیں رہنا۔ جلد یا بدیر‘ آپ کو بھی اپوزیشن میں جانا پڑے گا۔ اس وقت اس قانون کا تازیانہ آپ پر بھی برس سکتا ہے۔ ماضی میں پی ٹی آئی کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکمران مستقبل میں بھی اپنے سیاسی مخالفین پر ضرور تنقید کریں گے جو ہمارے خیال میں جمہوریت کا حسن بھی ہے اور تنگ آمد عوام کا حق بھی لیکن اگر اس طرح کے قوانین بنائے گئے تو یہی قوانین کل کو موجودہ حکمرانوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ تنقید سے بچنے کے لیے سخت قوانین کا سہارا لینے کے بجائے عوامی مشکلات کم کرنے پر توجہ دے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں بھی عوامی ردعمل سے بچا جا سکے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے‘ لہٰذا اس حوالے سے ہمیں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ البتہ ہمارے سیاسی رہنمائوں نے اگر سیاست کرنی ہے اور عوامی عدالت میں بھی دوبارہ جانا ہے تو اس طرح کے قوانین کے بجائے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہیے اور عوامی تنقید سے گھبرانا نہیںچاہیے بلکہ تعمیر و ترقی کے کاموں پر توجہ دینی ہے تاکہ عوام تنقید کے بجائے ان پر پھول نچھاور کریں اور ان کے گیت گائیں۔