جنگ ہو یا امن، سردی ہو یا گرمی، صحرا ہو یا دریا، پہاڑ ہوں یا سمندر، بارش ہو یا طوفان، زلزلہ ہو یا سیلاب، انتخابی عمل ہو یا کھیل کا میدان، اندرونی خلفشار ہو یا سرحدوں پر دشمن کی یلغار، افواجِ پاکستان‘ خصوصاً بری فوج کے چاق و چوبند دستے ہمہ وقت مادرِ وطن پر نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بچپن سے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک میں خدا نخواستہ کہیں سیلاب آیا تو پاک فوج کے جوانوں نے ہی متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا، جانوروں کو ریسکیوکیا ، بند اور نہریں ٹوٹنے سے پڑنے والے شگاف بھرے اور متاثرین کو اشیائے خور و نوش مہیا کرنے سے لے کر ادویات اور علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی اور ان کی بحالی تک‘ سبھی کام اپنے بنیادی فرائض سمجھ کر سر انجام دیے۔
8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے میں لگ بھگ 70 ہزار افراد جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہوئے تھے۔ کئی بستیاں اور گائوں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں صبح 8 بج کر 52 منٹ پر مظفرآباد، باغ، وادیٔ نیلم، چکوٹھی اور پنجاب سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں 7.6 شدت کا قیامت خیز زلزلہ آیا تو خیبر پختونخوا (اس وقت صوبہ سرحد) کی 10 سے زائد تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ اس زلزلے کا مرکز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 95 کلومیٹر دور‘ اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا جبکہ اس کے نتیجے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہو گئے۔ بالا کوٹ اور مظفرآباد کے علاقے اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے جہاں مکانات، سکول، کالج، دفاتر، ہوٹل، ہسپتال، مارکیٹیں اور پلازے وغیرہ پلک جھپکنے میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ قیامت صغریٰ کی اس گھڑی میں پاک فوج نے ہی ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے ساتھ ساتھ لاشوں کی تدفین کی ذمہ داری بھی نبھائی تھی۔ اس کے علاوہ زخمیوں کو سی ایم ایچ راولپنڈی سمیت ملک بھر کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا اور ان کے مفت علاج معالجے کا بندوبست کیا گیا۔ راولپنڈی سمیت مختلف شہروں اور علاقوں میں کیمپ لگا کر متاثرین کو پناہ دی گئی اور ان کی تمام ضروریاتِ زندگی کا بھرپور خیال رکھا گیا۔ کے پی اور آزاد کشمیر کے دور دراز اوردشوار گزار پہاڑی علاقوں میں عارضی خیمہ بستیاں اور فیلڈ ہسپتال قائم کیے گئے۔ ریسکیو کے کاموں میں نہ صرف زخمیوں کا علاج کیا گیا بلکہ متاثرین کی بحالی کا فریضہ بھی پاک فوج نے ہی سرانجام دیا۔
یہ ہمارے سر کا تاج وہی ادارہ ہے جس کے افسران اور جوان وطن پر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن بزدل دشمن کو ہمارے فوجیوں سے اتنا خوف ہے کہ مستقبل میں فوجی بن کر دشمن کا مقابلہ کرنے کا عزم کرنے والے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور اسی ناپاک سوچ کے تحت چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 16 دسمبر 2014ء کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے یونیفارم میں پشاور کے آرمی پبلک سکول کی عقبی دیوار سے اندر داخل ہوئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد کلاس رومز کا رخ کیا گیا اور وہاں پر بچوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا۔ ادارے کی پرنسپل کو آگ لگا کر شہید کیا گیا۔ 9 اساتذہ اور 3 فوجی جوانوں سمیت کل 144 شہادتیں ہوئیں۔ 113سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں بیشتر چھوٹے بچے تھے۔ شہید ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 17 سال کے درمیان تھیں۔ اس آپریشن میں پاک آرمی نے 950 بچوں‘ اساتذہ اور ورکرز کو سکول سے بحفاظت نکالا۔ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ باقی 6 آپریشن میں مارے گئے۔ یہ پاکستانی تاریخ کا مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ تھا جس نے 2007 ء کے کراچی بم دھماکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ مختلف اداروں اور مبصرین کے مطابق‘ دہشت گردی کی یہ کارروائی 2004ء میں روس میں ہونے والے بیسلان سکول پر ہوئے حملے سے ملتی جلتی تھی جہاں تین دن تک ایک سکول میں ہزاروں افراد کو محصور رکھا گیا تھا اور 186 بچوں سمیت 333 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ آرمی پبلک سکول کا سانحہ یقینا ایک بڑا سانحہ اور ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر یکسو کر دیا۔ جس فوج کے افسر اورجوان مادرِ وطن کی حفاظت ، ترقی ،خوش حالی اور امن وامان کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں‘ ان کے بچوں اور اہلِ خانہ کی قربانیاں بھی کسی سے کم نہیں۔
ملک میں کسی بھی سطح کے انتخابات ہوں تو سیاسی جماعتیں خود الیکشن کے پُرامن انعقاد کے لیے فوج کو پکارتی ہیں۔ جو انتخابات جیت جائے وہ اپنی کامیابی کو عوامی مقبولیت کا غماز قرار دیتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جو الیکشن ہار جائے وہ اپنی شکست کا سارا ملبہ اداروں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاست دان بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی پاک فوج ہے جس کے بغیر صاف، شفاف اور پُرامن انتخابات کا انعقاد بھی ممکن ہی نہیں ہو پاتا۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ صرف ہارنے والا ہی شکست کا ملبہ اداروں پر کیوں گراتا ہے؟ سیاسی معرکوں میں قومی اداروں کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ آج کل بھی ملک میں سیاسی ہلچل برپا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جا چکی ہے اور حزبِ اقتدار و اختلاف سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ متحدہ اپوزیشن بظاہر پہلی بار پُراعتماد دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ دوسری جانب حکمران جماعت بھی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے دعوے کر رہی ہے؛ تاہم حکمرانوں کو حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن سے زیادہ پریشان کر رکھا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم کو حمایت کا یقین دلایا جاتا ہے تو دوسری طرف‘ اسی دن شام کو اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوکر کہا جاتا ہے کہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور وہی فیصلہ کریں گے جو ''ملکی مفاد‘‘ میں بہتر ہو گا۔ یہاں مجھے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی وہ بات یاد آ رہی ہے کہ پاکستانی سیاست دان ہمیشہ اپنے مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ یعنی ہمارے لیڈران ملکی مفاد کے بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی کچھ آج کل قومی سیاسی منظر نامے پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
چند روز قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی‘ میجر جنرل بابر افتخار سے پریس بریفنگ میں موجودہ سیاسی صورت حال کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا صاف کہنا تھا کہ پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں‘ اس معاملے میں غیر ضروری بحث نہ کی جائے، یہی ہم سب کے لیے اچھا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ تقاضا وقت کی پکار بھی ہے۔ اگر ماضی میں کبھی ادارے مجبوراً سیاست میں مداخلت کرتے رہے تھے تو اس کے ذمہ دار سیاستدان ہی تھے جو اقتدار میں آنے کے لیے اداروں کا کندھا استعمال کرنے کے خواہش مند رہتے تھے جبکہ منتخب حکومت کو غیر مستحکم یا چلتا کرنے کے لیے‘ آج بھی یہ سیاستدان آئینی و جمہوری اصولوں سے متضاد راہ اپناتے نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی توپوں کا رخ اداروں کی جانب ہوتا ہے۔ نجانے ہم بحیثیت قوم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب بھی ملک میں کوئی ہنگامی حالات پیدا ہوئے تو یہ صرف پاک فوج ہی تھی جس نے حالات کو سنبھالا اور بحران کامقابلہ کرکے عوام کی مدد کی۔ فوجیوں کی تنخواہیں آج بھی سویلین اداروں کے مقابلے میں کم ہیں لیکن کبھی کسی جوان نے گلہ‘ شکوہ نہیں کیا۔ میرے خیال میں ہمارے سیاست دانوں نے اداروں پر تنقید کو سستی شہرت کا آسان ذریعہ سمجھ رکھا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرے دن اداروں پر تنقید کر کے اپنا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمیشہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں‘ آج تک کسی نے ثبوت پیش کرنے کی ہمت نہیں کی جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب کچھ محض سیاسی بیان بازی اور الزام تراشی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ دفاعی بجٹ پر وہ لوگ بھی اعتراض اور تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں جنہیں فوج کے سٹرکچر تک کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں حزبِ اقتدار و اختلاف جس طرح حدیں پار کر رہے ہیں‘ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ امپائر نیوٹرل ہے۔