تعلیم اورتربیت دو الگ چیزیں ہیں۔ تعلیم توسکول‘کالج‘ مدرسے یا یونیورسٹی میں داخلہ لے کر حاصل کی جاسکتی ہے ‘لیکن تعلیم کی بہت سی اقسام ہیں اور مختلف اداروں سے حاصل کی جانے والی تعلیم کے معیار میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ جو شخص کسی بھی ادارے سے کوئی سرٹیفکیٹ ‘ ڈپلومہ یا ڈگری حاصل کرتاہے تو اسے عرفِ عام میں تعلیم یافتہ کہاجاتا ہے ۔ تعلیم وتربیت کے الفاظ عموماًایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں اور عام آدمی ان کے درمیان پائے جانے والے وسیع فرق کو نہیں سمجھتا ۔ حقیقت میں دونوں الفاظ کے معانی میں نمایاں فرق ہے‘ اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں یعنی تعلیم‘ تربیت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی اور تربیت‘ تعلیم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔موجودہ دور میں ہمارے تعلیمی ادارے ڈگریاں تقسیم کرنے کا ہی فریضہ سرانجام دے رہی ہے ‘ طلبا کی تربیت پر توجہ نہیں دی جاتی جس کے باعث کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اخلاق و کردار سے عاری ہوتے ہیں۔انہیں باسلیقہ گفتگو کا ڈھنگ ہی نہیں آتا اور جب کہیں لاجواب ہوجائیں تو بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔ یہیں سے ان کی کمزور تربیت کا راز افشاں ہونے لگتاہے اور ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود انہیں جاہل تصور کیاجاتاہے۔
تعلیم دراصل سیکھنے کی سہولت فراہم کرنے والا ایک عمل ہے جس سے بچے علم‘ ہنر‘ اقدار‘ عقائد اور عادا ت سیکھتے ہیں۔ تعلیم کا تعلق براہ راست انسانی شعور اور فہم سے ہے کہ شعور کی بہتری اور فہم کی درستی کے لیے تعلیم کا عمل انجام دیا جاتاہے۔ مشہورماہرتعلیم مارک کے سمتھ نے تعلیم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ سچائی اور امکان کو مدعو کرنے کا عمل ہے جس میں حق‘ سچائی اور امکان کو مدعو کرنے ‘ ان خصوصیات کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دریافت کو فروغ دیا جاتا ہے۔
تربیت درحقیقت وہ فن ہے جسے انسان سازی کا عمل بھی کہا جاتا ہے۔انسان دوعناصر کا مجموعہ ہے: ایک ظاہری جسم جو انسان کے علاوہ ہرمخلوق کے پاس موجودہے جبکہ انسانی ترکیب کے دوسرے اہم عناصر میں اس کے اخلاق وعادات‘ مہارتیں‘اعمال وکردار‘ سوچ اور اس کے مجموعی رویے ہوتے ہیں جو اسے اخلاقی وجود عطا کرتے ہیں۔انسانی ترکیب کا یہ دوسرا حصہ ہی ہے جو اسے دنیا کی دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتا ہے‘تربیت کہلاتاہے۔
تعلیم معلومات کے منظم سلیبس‘ اساتذہ اور ہدایات ولیکچرز کے مربوط نظام کے ذریعے حاصل ہوتی ہے‘ جبکہ تربیت عملی مشق ‘ مہارت حاصل کرنے اورعملی طورپر سیکھنے سکھانے کے عمل کا نام ہے۔تعلیم حقائق کو جاننے کا نظریاتی پہلو ہے جبکہ تربیت اس کا عملی پہلو ہے۔ تعلیم اساتذہ کی مدد سے حاصل ہوتی ہے جو اپنے طلبہ کو معلومات کی فراہمی کے ذریعے اسے ممکن بناتے ہیں جبکہ تربیت مربی یا مرشد کی مدد سے حاصل ہوتی ہے جو اپنے زیر تربیت فرد کے ساتھ نہایت قریبی تعلق بناتاہے اورپھر اس کی جذباتی سطح میں داخل ہوکر اس کی تربیت کرتاہے۔
تربیت کی اولین ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے اور سوسائٹی میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ باپ کی شفقت سے محروم رہ جانے والے بچوں کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث عام آدمی کے لئے سازگار نہیں‘ غریب آدمی کے ساتھ ساتھ سفید پوش طبقے کے لیے بچوں کاپیٹ پالنا اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ترین ہوچکاہے۔سٹریٹ کرائم میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے۔ آئے روز مختلف علاقوں میں والدین کی جانب سے اپنے معصوم بچوں کو قتل کرنے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہاہے جبکہ غربت‘ بھوک اورافلاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر بچے فروخت کرنے کے مکروہ اور افسوسناک واقعات سر اٹھانے لگے ہیں۔ بیروزگاری سے تنگ نوجوان نسل میں عدم برداشت کاعنصر تیزی سے بڑھنے لگاہے اور معمولی سی تلخ کلامی پر لڑائی جھگڑا‘ مارکٹائی اور قتل وغارت کے واقعات کی شرح بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
ملک کی معیشت تو تباہی کے دہانے پر ہے ہی لیکن اخلاقی لحاظ سے بھی ہم تیزی سے تنزلی کاشکار ہورہے ہیں۔ ایسے حالات میں لیڈرشپ کاکام ہوتاہے کہ وہ قوم کی قیادت کرے‘ ان کے مسائل حل کرے‘ مشکلات دور کرے‘ ریلیف فراہم کرے اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے آگے بڑھنے کاحوصلہ دے۔ یقینا دنیا میں آج بھی کچھ ایسی قومیں ہوں گی جن کی قومی و سیاسی قیادت مشکل حالات میں قوم کو ساتھ لے کر چلتی ہوگی‘ عوام کی مشکلات دور کرتی ہوگی اور اپنی قوم میں اتحاد واتفاق پیدا کرکے ترقی کی شاہراہ پر ڈالتی ہوگی لیکن ہمارے ہاں ایسی توقع کرنا تو دیوانے کے خواب سے بھی بدتر ہے کیونکہ ہماری سیاسی قیادت کے پاس شاید اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں تو موجود ہیں لیکن تربیت کا فقدان نظر آتاہے اور جن کی تربیت میں ہی بظاہر کمی نظر آرہی ہو ان سے اچھی تہذیب کی توقع ہر گز نہیں کی جاسکتی۔
ملک میں موجودہ معاشی بحران شاید صرف غریب آدمی کے لیے ہی ہیں کیونکہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا لیکن عام آدمی کے ذرائع آمدن آج بھی وہیں ہیں جہاں آج سے چند سال قبل تھے یعنی اگر آمدنی میں بیس یا تیس فیصد اضافہ ہوا ہے تو مہنگائی میں کم ازکم پانچ سو فیصد اضافہ ہوچکاہے لیکن یہ مسئلہ ہمارے سیاستدانوں کانہیں اور نہ ہی انہیں عام شہریوں کے مسائل سمجھ آسکتے ہیں کیونکہ ان کے ذرائع آمدن کا حساب عوام سے مختلف ہے۔ ان کے اخراجات تو سرکاری خزانوں سے پورے ہوجاتے ہیں لیکن ذرائع آمدن میں اضافہ ان کے اختیارات اور تعلقات کے باعث بڑھتا ہی چلاجاتاہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں معاشی مسائل نظر ہی نہیں آتے جن کی وجہ سے غریب کا جینا محال ہوچکاہے۔
اس وقت وطن عزیز معاشی بحران کے ساتھ سیاسی طور پر بھی شدید مسائل سے دوچار ہے اور جس طرح ایک عام آدمی مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ ہے اسی طرح ہمارے سیاستدان اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں اور مقابلہ بہت سخت ہے۔رسہ کشی کے لیے میدان سج چکاہے‘ ٹیم میں اپنے اپنے کھلاڑیوں کا انتخاب کرچکی ہیں ۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ امپائر جلد ازجلد سیٹی بجائے اور مقابلہ شروع کرائے لیکن حکومتی ٹیم موسم کچھ مزید خوشگوار دیکھنا چاہتی ہے اس لئے کھیل کو طول دیتی جارہی ہے۔ یہ ہر کھیل میں ہوتاہے کہ ایک ٹیم مقابلہ جلد شروع کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری ٹیم تاخیری حربے استعمال کرتی ہے ‘لیکن اب تو میدان سج چکا ہے‘ ٹورنامنٹ کا شیڈول جاری ہوچکاہے اور اب نفسیاتی جنگ جاری ہے ۔
اس مرحلے پر ایک بات عیاں ہوچکی ہے کہ عام آدمی تو غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہوتاہے اورمعاشی پریشانیوں کے باعث بعض اوقات اخلاقی اقدار بھول کر کچھ غلط کرنے پر مجبور ہوجاتاہے‘ اس میں تعلیم کی کمی بھی ایک وجہ ہوتی ہے‘ لیکن ہمارے سیاستدان اوران کے بچے تو اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہوتے ہیں ۔شاید ان کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے‘ جس کی جھلک آج کل بھی واضح نظر آرہی ہے۔ سیاستدان جس طرح ایک دوسرے کے خلاف غیراخلاقی گفتگو کر رہے ہیں اور قوم کی مشکلات کو نظرانداز کرکے اقتدار کی رسہ کشی میں مگن ہیں ‘ شاید یہی تعلیم اورتربیت کا وہ فرق ہے جو صرف ڈگریوں سے دور نہیں ہوسکتا۔ موجودہ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن سبق آموز بھی ہیں کہ ہمیں اگر اپنی آئندہ نسلوں کو ترقی وخوش حالی کی راہ پر گامزن کرناہے تو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ان کی بہترین تربیت کابندوبست بھی کرنا ہوگا تاکہ ان میں تہذیب پیدا ہوسکے اور ہم ایک ہجوم سے بہترین قوم بن سکیں۔