ہماری موجودہ معاشی صورت حال شاید ملکی تاریخ میں سب سے بدتر ہے لیکن کوئی بھی نہ تو مہنگائی کی بات کر رہا ہے اور نہ ہی بیروزگاری کا رونا رویا جا رہا ہے بلکہ ہر طرف 'سلیکٹڈ‘ اور 'امپورٹڈ‘ کی بحث جاری ہے۔ کوئی سابق حکمرانوں کو 'سلیکٹڈ‘ کہتا ہے تو کوئی نومنتخب حکومت کو 'امپورٹڈ‘ کے طعنے مار رہا ہے۔ قوم کا باشعور طبقہ پریشان ہے کہ معاشرہ کس راہ پر چل نکلا ہے۔ ہر طرف افراتفری کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ کوئی کسی کی بات برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ سب ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو‘ غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ کسی کو یاد نہیں ہے کہ ملک میں آٹے یا چینی کا کوئی بحران تھا یا ہے‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجوہات کیا ہیں، پہلے بجلی کتنے گھنٹے بند رہتی تھی اور آج کل کیا صورت حال ہے، عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہے یا نہیں، سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی صورت حال پہلے کیا تھی اور آج کیسی ہے، غریبوں کو ادویات مل رہی ہیں یا نہیں، بچوں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے مل رہے ہیں یا نہیں اور کیا لوگ جامعات کی فیسیں ادا کرنے کے قابل ہیں یا نہیں، اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ملازمت مل رہی ہے یا نہیں، ترقیاتی کام ہو رہے ہیں یا صرف فنڈز خوردبرد ہو رہے ہیں، امن وامان کی صورت حال کیا ہے اور سٹریٹ کرائمز میں کمی ہوئی یا مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے؟ یہ سارے مسائل اس وقت پسِ پشت جا چکے ہیں اور سیاسی تقسیم ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہر وقت اور ہر جگہ سیاسی بحث مباحثہ جاری ہے۔ ایک طرف سابق وزیراعظم عمران خان کے فالوورز ہیں جو نہ تو مہنگائی کی بات تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی کرپشن میں اضافے اور دیگر مسائل کو اہمیت دیتے ہیں، وہ صرف اور صرف اپنے لیڈر کے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ بیرونی سازش اور مداخلت پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم کی گئی اور اب غلامی کرنے والی امپورٹڈ حکومت کو عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت کے حامیوں کا موقف ہے کہ آئینی، قانونی، جمہوری اور پارلیمانی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو ہٹایا گیا ہے اور جمہوری و آئینی طریقے ہی سے شہبازشریف وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے ہیں۔
سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ اس ساری سیاسی بحث میں اہم قومی اداروں کو خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو قومی اداروں پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں حالانکہ یہ افراد ان اداروں کے حوالے سے ابتدائی معلومات سے بھی عاری نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جعلی اکائونٹس کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف غیر آئینی و غیر قانونی تنقید کی جا رہی ہے۔ سیاسی بحث میں کسی کو ملک وقوم کے وقار کا خیال نہیں۔ ایک طرف اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری جانب انہی اداروں سے ملک میں خط والے ایشو پر کمیشن بنانے اور نئے انتخابات یعنی نومنتخب حکومت کوختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بات شروع امریکی سازش سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام اداروں پر تنقید سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کو بھی کہنا پڑا ہے کہ پاک فوج اور عسکری قیادت کو سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی دانستہ کوششیں کی گئی ہیں، کچھ سیاسی شخصیات، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر غیر مصدقہ اور ہتک آمیز اشتعال انگیز بیانات کا عمل نقصان دہ ہے، توقع ہے سب قانون کی پاسداری کریں گے، حقیقت کے خلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات نہایت نقصان دہ ہیں، ملک کے بہترین مفاد میں قومی اداروں کو ایسے غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل سے دور رکھا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ بھی اپنے ریمارکس میں واضح کر چکی ہے کہ تمام فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں، ہر فیصلہ کسی کے حق میں ہوتا ہے تو کسی کے خلاف، عدالت کبھی بھی فیصلے سیاسی حالات کے مطابق نہیں کرتی بلکہ یہ آئین و قانون کے تحت کیے جاتے ہیں اور قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ دراصل ملک میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی ہے اور وہ سیاست دان جو پہلے غیر جمہوری طریقوں سے حکومتوں کی تبدیلی پر نہ صرف خاموشی میں عافیت سمجھتے تھے بلکہ اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی سرکار کا حصہ بھی بن جاتے تھے‘ اس بار جمہوری طریقے سے اچانک تبدیلی، اداروں کی جانب سے مکمل غیر جانبدار رہنے اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے آئین پاکستان کے تحفظ کے عہد پر کچھ زیادہ ہی پریشان ہو گئے ہیں۔ ان سیاسی حلقوں کاخیال ہے کہ جس طرح یہ سب کچھ اچانک ہوا ہے‘ اس میں کہیں نہ کہیں کوئی سازش ضرور شامل ہے اور اسی وجہ سے وہ سیاسی جلسے‘ جلوسوں کے ذریعے دبائو ڈال کر بازی پلٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔
بحیثیت کارکن صحافی سازش یا مداخلت کی اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش میں سابق حکومت کے کئی اہم عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں، سوال و جواب کے سیشن کیے، آف دی ریکارڈ باتیں ہوئیں‘ لہٰذا اب جو حقائق میرے سامنے آئے ہیں ان کاخلاصہ یہی ہے کہ ''گھر کو آگ لگ گئی‘ گھر کے چراغ سے‘‘ یعنی سابق وزیراعظم عمران خان کے اردگرد موجود ان کے رفقا ہی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کا باعث بنے۔ سابق وزیر اطلاعات کا یہ بیان سب کو یاد ہی ہو گا کہ جس میں وہ برملا کہہ رہے تھے کہ ان کی حکومت اور ادارے ایک صفحے پر نہیں تھے اور یہی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔ ایک اہم سابق حکومتی عہدیدار کے ساتھ کھانے کی میز پر طویل آف دی ریکارڈ گفتگو کا موقع ملا‘ ان کا فرمانا تھا کہ جنہوں نے بھی حکومت ختم کی ہے وہ ہرگز ہمیں چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد دوبارہ اقتدار میں دیکھنے کے لیے ہماری مدد نہیں کریں گے اور یہ بات خان صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ میرا سوال تھا کہ جب آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے تو پھر لانگ مارچ اور دھرنے کا کیا جواز ہے اور خواہ مخواہ عوام کو ایک نئے امتحان میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ جواب ملا کہ ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘۔ پھر پوچھا کہ حکومت تو بڑی پُراعتماد تھی، سب جمہوری حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر تھے، پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ سب کچھ ہی بدل گیا، اپوزیشن اقتدار میں آ گئی اور حزبِ اقتدار سڑکوں پر؟ مسکراتے ہوئے جواب ملا ''خان صاحب بڑے سادہ اور سیدھے انسان ہے، وہ نجی محفلوں میں جو باتیں کرتے رہے، ان کے دائیں‘ بائیں موجود ان کے کچھ اپنے ہی ان کی باتیں ریکارڈ کرکے اِدھر اُدھر پہنچاتے رہے جس سے حالات کشیدہ ہوئے‘‘ یعنی گھر کو آگ تو گھر کے ہی چراغوں سے لگی۔ شاید اب ایسی ہی کچھ ریکارڈنگز کے منظر عام پر آنے کے خدشات کے سبب کپتان کہہ چکے ہیں کہ ان کی کردار کشی کی جا سکتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومتیں پہلے بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں، کوئی بھی وزیراعظم آج تک اپنی مدت پوری نہیں کر سکا، ہر جماعت کبھی حزب اختلاف میں ہوتی ہے تو کبھی اقتدار کے مزے لوٹتی ہے، جس طرح کل کی اپوزیشن آج حکومت کر رہی ہے‘ اسی طرح پی ٹی آئی بھی آئندہ انتخابات کے ذریعے پھر حکومت میں آ سکتی ہے لہٰذا اپنی باری کا انتظار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ سیاسی درجہ حرارت کیوں بڑھایا جا رہا ہے؟ ہمارے سیاستدانوں کو سوچنا چاہئے کہ ملک میں افراتفری پھیلانے کے بجائے اپنا آئینی و جمہوری کردار ادا کریں اور عوام کو انتشار سے بچائیں، قومی اداروں پر تنقید سے گریز کیا جائے اور نوجوان نسل کو سیاسی مفادات کی خاطر آپس میں لڑانے کے بجائے مثبت سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ عوام کو بھی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن کر سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہ کریں اور اپنے حقوق کے لیے متحد ہو جائیں تاکہ ملک کو درپیش حقیقی مسائل حل ہوں، مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔