اقتدار دنیا کا سب سے بڑا نشہ ہے، جب کوئی بھی سیاسی لیڈر اقتدار میں آتا ہے تو نہ صرف اس کا چال چلن، اس کے طور طریقے اور رہن سہن بدل جاتا ہے بلکہ اس کی صحت میں بھی نمایاں اور واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ ویسے تو ان افراد کی بھی کمی نہیں جو اختیارات ملنے کے بعد عاجزی و انکساری کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں اور پھر اللہ پاک انہیں کامیابیوں و کامرانیوں کے انتہائی اعلیٰ مرتبے پر فائز کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں ان کی مدد فرماتا ہے اور پوری دنیا کے لیے وہ ایک مثال بن جاتے ہیں مگر اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد غرور و تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ سے منسوب ہے کہ دولت، اقتدار اور اختیار ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بلکہ آشکار ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ دولت، طاقت اور اختیارات ملنے پر ان کا ناجائز استعمال کریں، عوام کی ضروریات کا خیال رکھنے کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے کو ترجیح دیں، اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور اسے طوالت دینے کے لیے نااہل اور بدعنوان لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کر لیں تو پھر ان کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اول تو اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اچھے وقتوں میں اپنے مفادات کے لیے ساتھ رہنے والے اتحادی اور دوست بھی مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ ان باتوں کا رخ کسی سابق یا موجودہ صاحب منصب شخص یا حکومت کی طرف ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ جو بھی اقتدار میں عاجزی اختیار کرتا ہے‘ وہ حکومت اور اقتدار جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے مگر جو اختیارات ملنے پر اپنی اصل ذمہ داریاں ہی فراموش کر دیں تو پھر ایوان اقتدار سے نکلنے کے بعد ان کا آرام و سکون بھی چھن جاتا ہے۔ اقتدار کا نشہ انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور وہ ہر وقت دوبارہ حصولِ اقتدار کے خواب دیکھتے رہتے اور اس کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔
اس وقت ہماری ملکی سیاست پیچ و خم کا شکار ہے۔ ہر کچھ دیر بعد کوئی ایسا موڑ آتا ہے کہ پچھلے سب موضوعات یکایک پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آج کالم لکھنے کے لیے موضوع کی تلاش میں تازہ ترین خبریں دیکھ رہا تھا تو اچانک ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے ایک بیان نے نہ صرف سخت حیران کیا بلکہ شدید پریشانی سے بھی دوچار کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان بہت سے حوالوں سے خوش قسمت رہے ہیں۔ جو کچھ انہیں ملا وہ دنیا میں بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ایک عام کھلاڑی سے وہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے اور پھر ورلڈکپ جیتنے کے بعد قوم کے ہیرو بن گئے۔ قوم نے انہیں اتنا پیار دیا کہ جب وہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم پر نکلے تو لوگوں نے پیسوں سے بھرے ہوئے صندوق ان کے حوالے کر دیے۔ آج تک ان کے قائم کردہ ہسپتال عطیات پہ چل رہے ہیں اور اب ان ہسپتالوں کا سالانہ خرچہ ان کی کل تعمیری لاگت سے بھی متجاوز ہو چکا ہے مگر کبھی عطیات میں کمی نہیں آئی۔ پھر وہ سیاست میں آئے تو پاکستان کی نوجوان نسل نے خصوصی طور پر اپنے قومی ہیرو کا اتنا ساتھ دیا کہ آخرکار ان کی جدوجہد رنگ لے آئی اور وہ ملک کے سربراہ بن گئے۔ البتہ اقتدار میں آنے کے بعد خان صاحب سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ وہ بھی بعض روایتی سیاستدانوں کی طرح عوامی مسائل پر توجہ دینے سے قاصر رہے اور سارا زور صرف سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے پر لگاتے رہے۔ جب ان کی توجہ ملک میں روز افزوں مہنگائی اور بدحالی کی جانب مبذول کرائی گئی تو جواب ملا: میں آلو‘ ٹماٹر کے بھائو چیک کرنے کیلئے وزیراعظم نہیں بنا۔ وہ بھلے جس بھی مقصد کیلئے وزیراعظم بنے تھے‘ شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ غریب آدمی کا مسئلہ تو دال، سبزی اور روٹی ہی ہے اور جب یہی اشیا عوام کی دسترس سے نکل جائیں تو پھر لوگوں کی سوچ بھی بدل جاتی ہے اور جب عوام انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہوں تو پھر بڑے بڑے طاقتور حکمرانوں کے تخت بھی لرز جاتے ہیں۔ قدرت کو بھی شاید یہ بات پسند نہ آئی اور وہیں سے پی ٹی آئی حکومت کا زوال شروع ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپوزیشن‘ جسے خان صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے‘ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہو گئی اور راتوں رات پی ٹی آئی ایوانِ اقتدار سے نکل کر سڑکوں پر پہنچ گئی۔ لیکن شاید اب کپتان کو بھی اقتدار کا چسکا لگ چکا ہے۔ جن لوگوں کو وہ جیلوں میں ڈالنا چاہتے تھے‘ انہیں بطورِ حکمران کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟
بات سابق وزیراعظم کے حالیہ بیان کی ہو رہی تھی۔ اقتدار سے بے دخلی کے بعد عمران خان ملک ٹوٹنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے ایک ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں (موجودہ حکومت) کو اقتدار سے نہ نکالا گیا تو ملک کے ایٹمی اثاثے چھن جائیں گے اور (خاکم بدہن) ملک ٹوٹ جائے گا۔ یہ جب سے آئے ہیں‘ روپیہ نیچے جا رہا ہے، چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں، سٹاک مارکیٹ گر رہی ہے، ملک ڈیفالٹ ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک قومی ہیرو، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ایماندار، محب وطن اور نوجوان نسل کے پسندیدہ لیڈر ہیں لیکن ان کے مذکورہ بیان نے سخت مایوس کیا ہے۔ شاید اقتدار کے فراق میں وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ وطن عزیز کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اس قوم کو نئی سوچ دی تھی جس کے سبب پاکستان دنیا کی واحد نظریاتی مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا اور اب خدا کے فضل و کرم سے یہ ایٹمی قوت بن چکا ہے جس کے بعد ہمارے بزدل دشمنوں کو اس وطن پر میلی آنکھ ڈالنے کی جرأت بھی نہیں ہو سکتی۔ خان صاحب اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں یقینا وہ جانتے ہوں گے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے کس قدر محفوظ ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اتنا غیر ذمہ دارانہ بیان دیا ہے کہ جس کی کوئی توضیح و توجیہ نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک مہنگائی اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشے کی بات ہے تو شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ کہ سب سے زیادہ مہنگائی تو خود پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔ سارا عرصہ ڈالر بے قابو رہا، روپے کی قدر مسلسل کم ہوتی رہی اور ملک پر قرضوں کا سب سے زیادہ بوجھ بھی اسی دور میں ڈالا گیا۔ درحقیقت عام آدمی کے مسائل یہی ہیں جن پر کسی بھی نئی حکومت کے لیے قابو پانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
الحمدللہ ہماری بہادر مسلح افواج انتہائی پیشہ ورانہ اور چاق وچوبند ہیں جن کی مستعدی اور مہارت ہمارا دشمن بھی بخوبی جانتا ہے۔ ہمارے ایٹمی قوت بننے کے بعد سے اسی لیے اس خطے میں کوئی نئی جنگ نہیں چھڑ سکی کہ اب خطے میں طاقت کا توازن برقرار ہے۔ فروری 2019ء میں ہوئی فضائی جھڑپ کے بعد ابھینندن ورتمان نے بھارت کو جا کر بتا دیا ہو گا کہ پاکستان پر حملے کا کوئی سوچے بھی مت، ورنہ ہر بار چائے کی پیالی نہیں ملے گی۔ پاک فوج کے ترجمان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سیاستدان غیرذمہ دارانہ بیانات سے گریز کریں اور اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں لیکن اس کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدان سوچے سمجھے بغیر ہی جو منہ میں آئے‘ بول دیتے ہیں۔ ہمارے ایٹمی اثاثے انتہائی محفوظ ہیں اور ہماری بہادر افواج ملکی سرحدوں پر چوکس ہیں۔ آج 71ء والے حالات نہیں ہیں۔ اس سانحے کی وجوہات کچھ اور تھیں‘ اس وقت کے جغرافیائی حالات بھی مختلف تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ان شاء اللہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔ اس کے عوام کے دل ملک کی محبت میں ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور پوری قوم ملک کی سلامتی کی خاطر اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ سیاسی لیڈرشپ سیاست ضرور کرے لیکن خدارا! ملک و ریاست اور قومی اداروں کے حوالے سے غیرذمہ دارانہ بیانات سے گریز کیا جائے۔ ان شاء اللہ ملک پر کوئی آنچ نہیں آئے گی اور یہ تاقیامت سلامت رہے گا۔ پاکستان زندہ باد!