حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وزرا بخوبی جانتے تھے کہ معیشت اس وقت کن حالات سے گزر رہی ہے۔ عالمی منڈی پر کورونا اور پھر روس‘ یوکرین جنگ کے اثرات بھی نمودار ہونا شروع ہو چکے تھے۔ پی ڈی ایم کی تجربہ کار جماعتوں کو یقینا تحریک عدم اعتماد جمع کرانے سے قبل ہی ملک کے بدترین معاشی حالات اور مہنگائی کی نئی لہر کا اندازہ ہو گیا ہو گا لیکن اس کے باوجود انہوں نے نیب اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم کرنے کے لیے فوری طور پر انتخابات میں جانے کے بجائے اقتدار سنبھالنے کو ترجیح دی۔ وہ جانتے تھے کہ ڈالر بے قابو ہے، پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے جس سے مہنگائی کا نیا طوفان اٹھ کھڑا ہو گا، قومی خزانہ بھی بحرانوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں، بجٹ بھی سر پر تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اگر وہ ان سارے بحرانوں پر قابو نہ پا سکے تو سابق حکومت کے تمام مسائل کا ملبہ بھی ان پر ہی آن گرے گا اور آئندہ عام انتخابات میں انہیں شدید مشکلات پیش آ سکتی ہیں، لیکن پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے باوجود ایسے وقت میں‘ جب سابقہ حکمران جماعت تحریک انصاف پورے شد و مد سے انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی‘ مسندِ اقتدار پر براجمان ہونا ضروری سمجھا۔ موجودہ حکمران واقعی ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے تھے یا کوئی اور سیاسی ایجنڈا تھا؟ جو بھی تھا‘ تمام زمینی حقائق سے واقفیت کے باوجود جو ڈھول انہوں نے خود اپنے گلے میں ڈالا ہے‘ وہ اب انہیں بجانا تو پڑے گا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہم بڑا سنتے تھے کہ پی ڈی ایم نے ڈالر کی کمر توڑنے اور پاکستانی روپے کو طاقتور بنانے کے لیے حکمتِ عملی تیار کر لی ہے اور کئی ماہ پہلے ہی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی بجٹ بنانا شروع کر دیا تھا۔ بھولے بھالے عوام نے بھی اس اتحاد سے امیدیں وابستہ کر لیں کہ شاید ان کا تجربہ کام آ جائے اور جس طرح کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مہنگا ہونے سے روکے رکھا‘ شاید اب بھی کوئی ایسا ہی کمال کر دکھائیں لیکن اس بار تو ساری تدبیریں ہی الٹی پڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ جونہی اس تجربہ کار ٹیم نے اقتدار سنبھالا‘ ڈالر، پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس اور اشیائے ضروریہ سمیت ہر چیز کی قیمتوں کو پر لگ گئے۔ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات ملکی تاریخ میں کبھی اس قدر تیزی سے مہنگی نہیں ہوئی تھیں جس طرح پچھلے دو ماہ میں ان کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں۔
البتہ وزیراعظم شہباز شریف کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں عوامی مشکلات کا ادراک ہے اور وہ قوم خصوصاً عام آدمی کو ریلیف دینا چاہتے ہیں۔ ایک خبر ہے کہ وزیراعظم نے پانچ بنیادی اشیائے ضروریہ عوام کو سستے داموں فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے پورے ملک میں غریب اور پسماندہ طبقے کو آٹا، چینی، گھی، دالوں اور چاولوں پر سبسڈی دی جائے گی اور ان اشیا کی بازار سے کم نرخوں پر مسلسل فراہمی بھی یقینی بنائی جائے گی۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کے زیر صدارت یوٹیلیٹی سٹورز کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے غریب اور پسماندہ طبقے کیلئے بڑے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگلے مالی سال کیلئے پانچ بنیادی اشیائے ضروریہ کم نرخوں پر فراہم کی جائیں گی۔ علاوہ ازیں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ سبسڈی کا نظام شفاف اور ڈیجیٹل بنایا جائے، مختلف قسم کی سبسڈیز کو یکجا کرکے ایک جامع نظام بنایا جائے جس کے تحت پسماندہ طبقے کو خصوصی طور پر ریلیف دیا جائے۔ سبسڈی کے نظام میں اصلاحات کیلئے وزیر خزانہ، وزیر صنعت و پیداوار اور وزیر تخفیف غربت باہمی تعاون سے حکمت عملی تشکیل دیں۔ حکومت کا یہ اقدام بلاشبہ مہنگائی کی تپش میں جلنے والے غریب عوام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اس سے قبل آٹا، چینی اور گھی پر سبسڈی کے تجربات سے حکومت نے کیا سیکھا ہے۔ حکومت نے عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے فلور ملز مالکان کے ساتھ مذاکرات کیے اور انہیں سستے آٹے کی فراہمی پر مجبور کیا، یوٹیلیٹی سٹورز کے علاوہ شہروں میں مختلف مقامات پر سستے آٹے کے سیل پوائنٹس قائم کیے گئے جہاں سے عوام بہ آسانی آٹا خرید سکتے تھے، ان اقدامات کے بعد راولپنڈی اور لاہور سمیت کم ازکم پنجاب میں تو آٹا ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہے جس کے بعد عام دکانداروں نے بھی مجبوراً سستا آٹا رکھنا شروع کر دیا البتہ چینی اور گھی پر سبسڈی صرف یوٹیلیٹی سٹورز ہی پر دی جا رہی ہے۔ چونکہ یوٹیلیٹی سٹورز کی تعداد خاصی کم ہے، ہر علاقے یا محلے میں سٹور موجود نہیں اور زیادہ تر علاقوں میں چھوٹے سٹورز ہیں جن میں سٹاک تھوڑا ہوتا ہے اس لیے ایک‘ ایک کلو چینی یا گھی خریدنے کے لیے بھی لوگوں کو قطاروں میں کھڑا ہو کر گھنٹوںانتظار کرنا پڑتا ہے۔ اکثر سٹاک ختم ہونے کے اعلان کے بعد لوگوں کو مایوس ہو کر خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کہیں بھی بیک وقت ایک‘ دو کلو سے زیادہ گھی یا چینی فراہم نہیں کی جاتیْ اگر حکومت آٹے کے تمام سیل پوائنٹس پر سبسڈائزڈ چینی اور گھی کے سٹاک کی فراہمی کا مناسب بندوبست کرتی تو لوگوں کو کئی کئی گھنٹے قطاروں میں نہ کھڑا ہونا پڑتا اور اپوزیشن کو بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج کا جواز نہ ملتا۔
اب اگر دالوں اور چاولوں‘ جو زیادہ استعمال والی اشیا ہیں‘ کے بھی ایک کلوگرام کے پیکٹ لوگوں کو دیے جائیں گے اور اس ایک کلو دال یا ایک کلو چاول کے لیے شہریوں کا سارا وقت یوٹیلیٹی سٹورز کے باہر قطاروں ہی میں گزر جائے گا تو پھر ان سبسڈیز کا فائدہ صرف چند افسران اوریوٹیلیٹی سٹورز کے سٹاف ہی کو ہو گا۔ حکومت اگر اشیائے ضروریہ پر سبسڈی کا فائدہ صحیح معنوں میں عوام تک پہنچانا چاہتی ہے تو اسے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ یہ نمائشی سکیم قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہونے کے سوا حکومت کا کچھ بھلا نہ کر سکے گی۔ ضروری ہے کہ سب سے پہلے یوٹیلیٹی سٹورز انتظامیہ کو ہدایات جاری کی جائیں کہ جس طرح آٹا دس اور بیس کلو گرام کے تھیلوں میں فراہم کیا جا رہا ہے، اسی طرح چینی، دالیں اور چاول بھی کم از کم 2 اور 5 کلوگرام کی پیکنگ میں مہیا کی جائیں۔ گھی بھی اڑھائی سے پانچ کلو گرام کی پیکنگ میں فراہم کیا جائے تاکہ جو غریب شہری اپنا قیمتی وقت قطاروں میں کھڑے رہ کر گزار دیتے ہیں‘ انہیں کچھ فائدہ تو ہو۔ سٹورز کی انتظامیہ اور عملے کو اس بات کا بھی پابند بنایا جائے کہ سبسڈی آئٹمز کا سٹاک ختم نہ ہونے پائے اور جس سٹور کا سٹاک ختم ہو گا اس کے عملے کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی کیونکہ یہ شکایات عام موصول ہو رہی ہیں کہ ہوٹل مالکان اور دکاندار اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے یوٹیلیٹی سٹوروں سے 70 روپے کلو والی چینی کی بوریاں خرید رہے ہیں جبکہ غریب شہری طویل قطار اور گھنٹوں انتظار کے بعد سٹور میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ چینی ختم ہو گئی ہے‘ کل دوبارہ آنا یعنی 20 روپے کی بچت کے لیے اگلے روز دوبارہ اپنے تین‘ چار گھنٹے ضائع کرنا۔
یوٹیلیٹی سٹورز کے علاوہ شہر وں میں قائم کیے گئے آٹا سیل پوائنٹس پر بھی سبسڈائزڈ چینی، گھی، دالیں اور چاول رکھے جائیں تاکہ لوگوں کو محض سٹوروں پر ان اشیا کے حصول کے لیے قطاروں میں نہ کھڑا ہونا پڑے اور سٹورز کا عملہ یہ اشیا عام مارکیٹ میں بیچ بھی نہ سکے۔ حکومت ضلعی انتظامیہ کو احکامات جاری کرے کہ رمضان المبارک کی طرح سستے ماڈل بازاروں میں 'ڈسٹرکٹ فیئر پرائس شاپس‘ قائم کی جائیں جہاں آٹا، چینی، گھی، دالوں اور چاول کے سٹالز ہوں تاکہ شہری آسانی سے یہ چیزیں خرید سکیں۔ اگر حکومت واقعی مخلص ہے اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچانا چاہتی ہے تو اسے مذکورہ تجاویز کے ساتھ مزید بہتر اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ یہ سستی اشیا عام آدمی تک نہیں پہنچ پائیں گی اور مہنگائی کے اس شدید طوفان میں غریبوں کو کوئی ریلیف نہیں مل سکے گا۔ اس سے یقینا اپوزیشن کا بیانیہ مزید مضبوط ہوگا اورسابق حکومت کی غلطیوں کا ملبہ بھی موجودہ حکمرانوں پر آ گرے گا۔