وزیر خزانہ صاحب فرماتے ہیں کہ ''امیر افراد پر سپر ٹیکس لگایا ہے تو اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا‘ایسے میں حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ وزیراعظم کے بیٹوں کی فیکٹریوں پر سپر ٹیکس لگایا گیا، میں نے اپنے کاروبار پر بھی بہت زیادہ ٹیکس لگایا ہے، امیروں کو آگے آ کر قربانی دینا ہو گی، مخصوص 13 سیکٹرز کے لیے 10 فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا ہے، اب ان سیکٹرز پر ٹیکس 29 فیصد سے 39 فیصد ہو جائے گا۔ یہ ٹیکس بجٹ خسارے میں کمی کے لیے ایک بار لگایا گیا ہے۔ سیمنٹ، سٹیل، شوگر انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، بینکنگ انڈسٹری، ٹیکسٹائل، آٹو موبل انڈسٹری، کیمیکل، بیوریجز پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگے گا، عام آدمی کو ٹیکس سے بچانے کے لیے صنعتوں پر یہ ٹیکس لگایا ہے‘‘۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آئے روز جو نت نئی دلیلیں عوام کے سامنے رکھی جاتی ہیں عوام انہیں بخوشی قبول کر لیتے ہیں؟ ہر روز عوام پر نیا بوجھ یہ کہہ کر ڈالا جا رہا ہے کہ یہ نہ کرتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا، وہ نہ کرتے تو دیوالیہ ہو جاتے، عالمی معاہدوں کی بدولت ایسا کرنا ضروری تھا، سابق حکومت کی غلطیوں کے باعث ویسا کرنا مجبوری ہے۔ فلاں ٹیکس تو صرف صنعتوں پر لگایا گیا ہے، یہ ٹیکس تو صرف بڑے تاجروں پر لگایاگیا، وہ ٹیکس صرف امیروں پر لگے گا، ان ٹیکسوں کابوجھ غریب پر نہیں پڑے گا۔
وزیر خزانہ صاحب کسی ایک انڈسٹری، کسی ایک کاروبار یا کسی ایک شعبے کی بھی مثال پیش کر سکتے ہیں جو ٹیکس اپنی جیب سے دیتا ہو اور ٹیکس کا پیسہ عوام (صارفین) سے وصول نہ کیا جاتا ہو؟ ہوٹل میں کمرہ لیں تو کرائے کے علاوہ ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے، ریسٹورنٹ یا فوڈ پوائنٹ سے کچھ کھائو تو بل میں ٹیکس الگ سے شامل ہوتا ہے۔ آٹا، چینی، دال، چاول، گھی، چائے، دودھ، مسالا جات، خوردنی تیل‘ غرض بنیادی ضرورت کی کون سی ایسی شے ہے جس پر عام آدمی ٹیکس نہیں دے رہا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ٹیکس تو ریسٹورنٹ کے مالک پر لگایا گیا ہے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ کٹوتی مالک سے نہیں بلکہ کھانا کھانے والے عام شہری سے ہو رہی ہے۔ شوگر انڈسٹری پر لگنے والا ٹیکس بھی عام صارف ہی کی جیب سے جا رہا ہے۔ اسی طرح حکومت نے جتنے بھی شعبوں پر سپر ٹیکس لگایا ہے‘ اسے آپ سپر ٹیکس کا نام دیں یا کوئی بھی نام رکھ دیں، صنعت کار نے اس کا بوجھ صارفین ہی پر منتقل کرنا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ سپر ٹیکس محض امیروں پر لگا ہے اور اس کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا‘ بالکل غلط اور غیر زمینی حقیقت ہے۔
جس دن بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس کا اعلان ہوا، اسی روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان رہا۔ سٹاک ایکسچینج میں ہنڈرڈ انڈیکس 2 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی کے بعد 40 ہزار 661 پر آ گیا۔ سپر ٹیکس پر مارکیٹ نے بھی شدید ردعمل دیا، حکومتی فیصلہ سرمایہ کاروں کو حیران کر رہا ہے۔ فیصلے پر ایک رائے یہ ہے کہ ملکی معیشت دستاویز ہو اور سرمایہ کاری بڑھے لیکن حکومت سرمایہ کاری پر ٹیکس لگائے گی تو سرمایہ کاری کیسے بڑھے گی؟ حکومتی پالیسیاں خود ہی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث تنخواہ دار طبقے کے لیے باعزت زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، نئے ٹیکس سلیب کے مطابق ماہانہ ایک لاکھ سے 3 لاکھ تنخواہ والے طبقے پر 12 فیصد ٹیکس کا اطلاق ہو گا۔ ان ٹیکسوں کا نفاذ گورنمنٹ کے ساتھ نجی شعبے پر بھی ہوتا ہے، متعدد ایسے شعبے ہیں جن میں نجی ملازمین کی تنخواہوں میں طویل عرصے سے مناسب اضافہ نہیں ہوا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ تو ہر سال بجٹ میں بڑھ جاتی ہے لیکن زیادہ تر ملازمین پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں جہاں سالانہ بنیادوں پر تنخواہ بڑھانے کا کوئی میکانزم نہیں ہے جبکہ ٹیکسوں کی کٹوتی باقاعدگی سے کی جاتی ہے۔ حکومت کو پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بھی کوئی منصوبہ پیش کرنا ہو گا۔
سرکار کا کہنا ہے کہ سونے کی 30 ہزار میں سے صرف 22 دکانیں رجسٹرڈ ہیں، کوئی سوال کرے کہ جب آپ جانتے ہیں کہ ملک میں 30 ہزار کے قریب گولڈ شاپس ہیں تو پھر ان کی رجسٹریشن کیوں نہیں کی جاتی؟ یہ کس کے کرنے کا کام ہے؟ ایک نوٹیفکیشن جاری کریں کہ بغیر رجسٹریشن سونے کے کاروبار کی اجازت نہیں، سب خود ہی رجسٹریشن کرانے پر مجبور ہوں گے۔ حکومت سیمنٹ، سریے اور چینی وغیرہ پر ٹیکس لگانے کے بجائے سونے جیسی لگژری آئٹمز پر ٹیکس لگائے کیونکہ زیورات جتنے بھی مہنگے ہو جائیں‘ کوئی بھی ان کی وجہ سے بھوکا نہیں مرے گا لیکن آٹا، چینی اور گھی مہنگا ہونے سے نہ صرف غریبوں کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں بلکہ کئی افراد جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جس کا حساب کتاب یقینا حکمرانوں سے بھی ہو گا۔
ایک خبر کے مطابق‘ دنیا بھر کے 40 سرکردہ ماہرین صحت کا دستخط شدہ ایک خط وزیراعظم کو بھیجا گیا ہے جس میں زور دیا گیا کہ وہ شکر والے مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 20 فیصد تک بڑھا دیں۔ ماہرین نے خط میں متنبہ کیا ہے کہ مائع شوگر والے میٹھے مشروبات بڑھتے موٹاپے، ٹائپ ٹو ذیابیطس، امراض قلب اور کئی اقسام کے کینسر کا بڑا سبب ہیں۔ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں مقیم پروفیسر بیری ایم پوپکن کے نمائندہ گروپ نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ارسال کیے گئے خط میں پاکستان میں بچوں کے بڑھتے ہوئے وزن اور موٹاپے کے بارے میں خبردارکرتے ہوئے کہا کہ اگر زیادہ وزن اور موٹاپے وکینسر کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2025ء تک ملک بھر میں ایسے افراد کی تعداد دو گنا تک بڑھ سکتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک میں عوام کی اکثریت کو تو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں اور ایسے مشروبات پینے والوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ حکومت اس تناظر میں مشروبات پر ٹیکس بڑھا کر فائدہ اٹھا سکتی ہے جو نہ صرف ایک اہم ذریعہ آمدن ہو گا بلکہ عوام کی صحت کو بہتر بنانے کابھی ایک قدم ہو گا، یوں اشیائے ضروریہ پر ٹیکس لگانے کے بجائے میٹھے مشروبات پر دو گنا ٹیکس لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے عام شہری زیادہ متاثر نہ ہو گا۔ اسی طرح کا ایک خط وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی بھیجا گیا تھا۔ دنیا بھر میں 53 سے زائد ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ایسے مشروبات پر ٹیکس بڑھایا اور اضافی آمدنی اور صحت کے حوالے سے مثبت نتائج سے فائدہ اٹھایا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ انڈسٹری کے دباؤ کو مسترد کرے اور ایسے تمام مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو کم از کم 20 فیصد تک بڑھا دے۔ گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے کنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام کے مطابق پاکستانی روزانہ ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور دیگر دائمی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں، حکومت کارپوریٹ مفاد کے بجائے صحت عامہ کو ترجیح دے، فنانس بل 2022ء مشروبات پر ٹیکس بڑھانے کا ایک اچھا موقع ہے جسے مثبت طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
گزشتہ دنوں ایک تحریر پڑھ کر معلوم ہوا کہ پاکستان میں زندگی بچانے والی ادویات اور دال روٹی پر تو ٹیکس عائد ہے جس کی وجہ سے آئے روز ان کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے امرا کے استعمال کی کئی ایسی اشیا ہیں جن کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہ بات واقعی حیران کن ہے کیونکہ یہ اشیا نہ تو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں اور نہ ہی یہ غریب آدمی کا شوق ہیں۔ پھر حکومت روٹی، کپڑے اور مکان پر ٹیکس بڑھانے کے بجائے ایسی اشیا سپر ٹیکسز کیوں نہیں لگاتی؟ اسی طرح سگریٹ کی قیمت اگر دوگنا تک بھی بڑھا دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اگر غریب آدمی مہنگائی کے باعث سگریٹ نوشی ترک کر دے گا تو اس میں اس کا کوئی نقصان نہیں بلکہ اس سے صحت کا فائدہ ہی ہو گا اور بچت الگ سے ہو گی۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ بنیادی ضرورتوں پر ٹیکس لگانے یا بڑھانے کے بجائے سگریٹ میٹھے مشروبات اور ان جیسی پُرتعیش اشیا پر ٹیکس کی شرح بڑھائے کیونکہ عام اشیا پر عائد سپر ٹیکس بھی تو آخری صارف (عام آدمی) ہی نے ادا کرناہے جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔