ہماری ملکی سیاست اس وقت بڑی بے رحم ہو چکی ہے اور بدقسمتی سے ہم اپنی سیاسی اقدار اور روایات کو فراموش کر کے اصلاح کی راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ملک میں خدمت کے بجائے مفادات کی سیاست زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اچھے لوگ یقینا ہر جگہ اور ہر شعبے میں موجود ہیں، شعبۂ سیاست میں بھی انتہائی ایماندار، محب وطن، فرض شناس، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بااخلاق اور بے لوث افراد کی کمی نہیں لیکن اکثریت ایسے سیاست دانوں کی نظر آتی ہے جن کا مقصد اور منزل اقتدار کے ایوان ہیں، جنہیں ہر حال میں اور کسی بھی قیمت پر الیکشن جیت کر حکومتِ وقت میں اپنے لیے کوئی اہم عہدہ چاہئے ہوتا ہے۔ ایسے سیاست دانوں کے نظریات صرف اور صرف اپنی موجودہ جماعت کی مرکزی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے گرد ہی گھومتے ہیں جبکہ ان کا منشور الیکشن والے دن پولنگ ختم ہونے تک ہی ہوتا ہے۔ اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد یہ منشور کمزور اور پھر وزارت یا کوئی دوسرا حکومتی عہدہ ملنے کے بعد سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج کل ایسے سیاست دانوں کی اکثریت ہے جن کا کوئی نظریہ‘ کوئی منشور نہیں، جن کی اپنی کوئی سوچ یا کوئی سیاسی رائے نہیں ہے۔ انہیں صرف اورصرف ایک ایسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ چاہئے ہوتا ہے جو انتخابات میں ان کی کامیابی کی ضمانت بن سکے۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے اور منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے کئی سیاست دانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سے پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ لیا، پارٹی قائد میاں نواز شریف اور شیر کی تصاویر والے ہزاروں بینرز اور پارٹی منشور کے لاکھوں پوسٹرز تک پرنٹ ہو گئے تھے۔ ہر کارنر میٹنگ کی تقاریر میں وہ پی ٹی آئی کی قیادت پر دھرنوں کے ذریعے ملکی ترقی روکنے اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے حوالے سے خوب جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے۔ موصوف نے ریٹرننگ افسر کے پاس انتخابی نشان 'شیر‘ کے لیے پارٹی سرٹیفکیٹ تک جمع کرا دیا تھا۔ اس شام ان کے گھر اور ڈیرے پر خوب جشن بھی منایاگیا لیکن اگلے ہی روز کسی مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر دیا۔ انہوں نے فوراً قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے اور پھر ریٹرننگ افسر کے پاس قومی اسمبلی کے لیے 'بلے‘ کے انتخابی نشان والا سرٹیفکیٹ جمع کرا دیا۔ صوبائی اسمبلی کے لیے جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی اور 'شیر‘ کے نشان والا سرٹیفکیٹ انہوں نے واپس لے لیے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ میاں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت ان کے نزدیک کرپٹ اور ملک و قوم کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ اب ان کے ڈیرے پر پی ٹی آئی کے ترانے بج رہے ہیں اور وہ سابق وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ''نئے پاکستان‘‘ کے لیے سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حلقے کے عوام کے ساتھ پی ٹی آئی قیادت بھی یقینا یہ بات جانتی ہے کہ ان کی وفاداری مشکوک ہے اور لازم نہیں کہ وہ اگلا الیکشن بھی 'بلے‘ ہی کے نشان پر لڑیں۔ وہ حالات و واقعات اور ہوا کا رُخ دیکھ کر پارٹی، قائد اور انتخابی نشان‘ کسی بھی وقت تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس وقت چونکہ سیاسی سمندر بھنور کا شکار ہے‘ سو موصوف ہوائوں کارخ دیکھ رہے ہیں کیونکہ ان جیسے سیاسی رہنمائوں کا مقصد محض ہوا کے اُس رخ پر چلنا ہوتا ہے جو اسمبلی کی طرف جاتا ہو۔
میراذاتی تجزیہ یہ ہے کہ اگر ہمارے اکثریتی سیاست دانوں کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ پارٹی ٹکٹ کے بغیر بھی الیکشن جیت سکتے ہیں تو پھر وہ اپنی انتخابی مہم میں اپنے سوا تمام لیڈروں کو چور، لٹیرا، نااہل اور سماج دشمن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے؛ تاہم زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی حمایت کے لیے انہیں کسی ایسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ درکار ہوتا ہے جس کی ان کے حلقے میں واضح حمایت موجود ہو، لہٰذا اسی پارٹی کا سربراہ ان کا قائد بن جاتا ہے اور وہی قائد‘ پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے ناگزیر بھی ہو جاتا ہے، اب ان کے نزدیک صرف ایک ہی جماعت ملک کی خیر خواہ اور اس کا لیڈر ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نکال سکتا ہے اور ان کے مخالفین کا الیکشن جیتنا گویا وطنِ عزیز کے لیے کسی بڑے قومی و عالمی بحران کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
ملکی تاریخ گواہ ہے کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے دو ادوارِ حکومت میں ان کے ساتھ وزارتوں اور قتدار کے مزے لوٹنے والے متعدد رہنمائوں نے پرویز مشرف کی جانب سے اقتدار سنبھالتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنے میں عافیت جانی۔ ان کی نظر میں پرویز مشرف کا اقتدار سنبھالنا اور صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہونا ملک و ریاست کی بقا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ یہی نہیں‘ اب ان کی نظر میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کے لیے آئی تھیں۔ ان کے خیال میں سابق وزرائے اعظم اور ان کے وہ ساتھی ہی کمزور معیشت کے ذمہ دار تھے جنہوں نے وفاداریاں تبدیل نہیں کی تھیں۔ جو لوگ پرویز مشرف کے ساتھ مل چکے تھے‘ انہیں صرف ملک کی ترقی و سلامتی عزیز تھی۔ 2008ء میں بھی یہی کچھ ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات کے بعد حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی اور پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار کا خاتمہ ہوا، اس کے ساتھ ہی سیاستدانوں کی اکثریت دوبارہ ''تائب‘‘ ہوکر ایک زرداری‘ سب پر بھاری کا نعرہ لگانے لگی۔ اپنی وفاداری تبدیل کرنے کو ایک سیاسی غلطی قرار دے کر سارے گناہ بخشوا لیے گئے۔ 2013ء کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی اور نواز شریف وزیراعظم بنے تو تب تک پرویز مشرف دور کے کئی وفاقی وزرا نہ صرف واپس آ چکے تھے بلکہ انہوں نے نواز شریف کابینہ میں حلف بھی اٹھایا تھا۔ پرویز مشرف کے ''بھائی بند‘‘ اب میاں صاحب کے جانثار بن چکے تھے۔ میرے محدود علم کے مطابق صرف چودھری برادران اور شیخ رشید احمد کے علاوہ‘ تقریباً تمام لوگوں کے لیے (ن) لیگ کے دروازے کھول دیے گئے تھے اور اکثریت نے دوبارہ پارٹی جوائن کر لی تھی۔ 2018ء میں عمران خان کی مقبولیت دیکھ کر آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے کئی وفادار سمجھے جانے والے ساتھی پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ یہی لوگ تھے‘ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘ کے مترادف میڈیا میں جنہوں نے اپنے سابق قائدین کو چور اور کرپٹ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جب ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بھی عوام میں غیر مقبولیت کا شکار ہونے لگی تو ساتھ ہی ان فصلی بٹیروں کے کپتان کے ساتھ اختلافات کی باتیں عوام ہونے لگیں اور اکثریت نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے دوبارہ اپنی سابقہ قیادت سے رابطے استوار کر لیے۔ یہیں سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا راستہ ہموار ہوا تھا۔
پارٹی تبدیل کرنا یا حکومت وقت کے ساتھ اتحاد یا الحاق ہرگز غلط نہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ پارٹی تبدیل کرنے والے کے مقاصد کیا ہیں اور انہوں نے کن حالات میں وفاداری تبدیل کی۔ کون نہیں جانتا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر بننے والے فارورڈ بلاک زیادہ تر ''نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت وجود میں آتے ہیں۔ ہماری سیاسی روایات اور اقدار‘ جو پہلے ہی کمزور تھیں‘ اب دم توڑتی جا رہی ہیں۔ سیاسی مخالفتیں ذاتی دشمنیوں میں بدلنے لگی ہیں۔ سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے اور جعلی اکائونٹس کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف توہین آمیز مہم چلانا عام ہو چکا ہے جس نے ہماری نوجوان نسل کو بھی اخلاقی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ جب تک ہم سیاسی اقدار کو مضبوط نہیں بنائیں گے‘ اس وقت تک ملک حقیقی ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سیاسی قیادت کو چاہئے کہ ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قوم کی اخلاقی تربیت پرتوجہ دے، سب کو پابند بنایا جائے کہ سیاسی مخالفت کو انتخابی مہم تک محدود رکھیں اور ایک دوسرے کی پگڑیاں نہ اچھالیں۔