تو پھر کیا ہوا؟

بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں معروف اقلیتی رہنما جے سالک بہبودِ آبادی کے وفاقی وزیر بنے تو ایک سینئرصحافی دوست کے ہمراہ ہم ان سے ملاقات کے لیے وزارتِ بہبود آبادی کے دفتر چلے گئے۔ وہاں ہم نے لوگوں کی ایک قطار دیکھی۔ ہم اس قطار کے پاس سے گزرکر منسٹر صاحب کے کمرے میں چلے گئے۔ ہماری موجودگی میں کئی سائلین وفاقی وزیرسے ملنے آئے لیکن جونہی کوئی ملاقاتی ان کے دفتر میں داخل ہوتا تو وہ اس سے پوچھتے کہ آپ نے اپنا لیٹر لے لیا ہے یا نہیں؟ اگر تو سائل کہتا کہ جی! لیٹر لے لیا ہے تو وہ اسے کہتے کہ ٹھیک ہے‘ اب آپ جائیں اور اپنا کام کرائیں۔ اگر کسی نے لیٹر نہ لیا ہوتا تو وہ اسے کہتے کہ پہلے باہر بابو کے پاس جائیں اور آپ کاجو بھی مسئلہ ہے‘ وہ اسے بتا کے اس سے لیٹر لے لیں۔ پھر وہ ہم سے مخاطب ہوئے اور بتانے لگے کہ وزارت سنبھالنے کے بعد میں نے سب سے پہلے اپنے عملے کو یہ ہدایت کی کہ کسی بھی ملاقاتی کو میرے پاس آنے سے ہرگز نہ روکا جائے۔ یہ جو باہر آپ نے قطار دیکھی ہے‘ یہ سب اقلیتی سائلین ہیں جو ملک بھر سے اپنے مختلف کاموں کی غرض سے میرے پاس آئے ہیں۔ ان میں سے کسی نے اپنا بیٹا ریلوے میں بھرتی کرانا ہے، کسی نے بچے کو یونیورسٹی میں داخل کرانا ہے، کسی نے وزارتِ داخلہ سے اسلحے کا لائسنس لینا ہے، کسی نے گھر پر ٹیلی فون تو کسی نے بجلی یا گیس کا کنکشن لگوانا ہے۔ میرے پاس تو بہبودِ آبادی کا قلمدان ہے لیکن یہ غریب لوگ ایک امید لے کر میرے پاس آتے ہیں‘ اس لیے میں نے اپنے کلرک کو کہہ رکھاہے کہ جو بھی سائل‘ جس بھی کام کے لیے آئے‘ اسے میری طرف سے سفارشی چٹھی دے دو۔ اگر میرے ایک لیٹر کی وجہ سے کسی غریب کا کام ہو جاتا ہے تو اس سے زیادہ اچھی بات کیا ہو سکتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں کے کام پہلی باری میں ہی ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی کا کام نہیں ہوا ہو گا تو وہ دوبارہ آ جائے گا۔ ہم دوبارہ اسے لیٹر دے دیں گے۔ جے سالک مسکراتے ہوئے بولے: یہ غریب لوگ اس پر ہی خوش ہو جاتے ہیں، مجھے دعائیں دیتے ہیں اور میں بھی دعائیں اور تعریفیں سن کر خوش ہو جاتا ہوں۔
ابھی ہماری گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ایک اقلیتی کونسلر دفتر میں داخل ہوئے اور آتے ہی وفاقی وزیر سے گلے شکوے شروع کر دیے کہ پولیس والے آئے روز کرسچن لڑکوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ اگر آپ کے ہوتے ہوئے بھی ایسا ہی ہونا ہے تو آپ کی وزارت کا کیا فائدہ؟ جے سالک نے انہیں بیٹھنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اول تو میں بہبودِ آبادی کا وزیر ہوں، پولیس میرے ماتحت نہیں لیکن اس کے باوجود میں روزانہ متعلقہ لوگوں اور محکموں کو کال کر کے آپ لوگوں کے مسائل حل کرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ لوگ پرمٹ سے ہٹ کر الکوحل فروخت نہ کریں تو پولیس کبھی ان کو نہ پکڑے۔ آپ یہ تسلیم کریں کہ یہ لوگ غلط کام کرتے ہیں‘ تبھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیرصاحب دلائل سے بات کر رہے تھے لیکن ان کو ملنے کے لیے آنے والے کونسلر صاحب صرف ایک ہی بات جواب میں کہے جا رہے تھے کہ اگر ہمارے لڑکے منشیات فروشی کرتے ہیں تو پھر کیا ہوا؟ ان کو استعمال کرنے والے کون لوگ ہیں؟ وہ بھی تو غلط کام کر رہے ہیں۔ غریب لوگ اگر تھوڑا بہت کچھ پرمٹ سے ہٹ کربیچ دیتے ہیں تو پھر کیا ہوا؟ وہ صاحب اپنی غلطی ماننے کے بجائے ''پھرکیا ہوا؟‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ جب ہم وہاں سے اٹھنے لگے تو سالک صاحب نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے بطور صحافی کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ ہمارا جواب تھا کہ آپ واقعی اقلیتی برادری کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں جس پر وہ مسکرائے اورکہنے لگے کہ یہ بات میری برادری بھی جانتی ہے لیکن اس کے باوجود شاید میں اگلی بار ممبر قومی اسمبلی نہ بن سکوں کیونکہ جہاں 'پھر کیا ہوا؟‘ کی ضد ہو‘ وہاں آئین و قانون کی رٹ ختم ہو جاتی ہے۔
ایک دفعہ ایک وفاقی وزیر کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ کھانے کے بعد ایک صحافی نے از راہِ مذاق ان سے کہہ دیا کہ سنا ہے کہ آپ کی جماعت کا فلاں لیڈر فلاں غیر قانونی کام میں ملوث ہے۔ جس پر وہ وزیر صاحب کہنے لگے کہ تو پھر کیا ہوا؟ ملک میں اور لوگ بھی تو اس غیر قانونی کام میں ملوث ہیں اور یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ ان کے اس جواب پر وہاں موجود سب لوگوں نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر موضوع بدل گیا مگر میں ان کا جواب سن کر حیران رہ گیا کہ انہوں نے نہ تو اس کی تردید کی اور نہ ہی کسی شرمندگی کا اظہارکیا بلکہ نہایت دیدہ دلیری سے جواب دیا کہ پھر کیا ہوا؟ آج کل یہ ہمارے معاشرے کی ایک روایت بن چکی ہے، ہم برائی کو برائی سمجھنے کے بجائے اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ ''پھر کیا ہوا؟‘‘۔ سیاسی جماعتوں کے پیروکار بھی ہر مسئلے پر دلائل و حقائق سے جواب دینے کے بجائے ''پھر کیا ہوا؟‘ کی رٹ لگائے رہتے ہیں جو میرے خیال میں بحیثیت قوم ہمیں ترقی کے راستے سے ہٹا کر زوال و تنزل کی راہ پر دھکیلنے کے مترادف ہے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت نوجوان نسل میں عمران خان مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کے مداح لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان کے زیادہ تر مداحین کو اپنے لیڈر کے قول و فعل سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں اپنے ہیرو کی خوبیوں کے ساتھ اس کی تمام خامیاں بھی قبول ہیں اور شاید یہی وہ موڑ ہے جہاں سے غرور اور تکبر کی ڈگر شروع ہوتی ہے۔ اس وادی میں جس نے بھی قدم رکھا ہے‘ اس کے لیے پلٹنا آسان نہیں رہا اور بالآخر زوال ہی بیشتر صورتوں میں اس کا مقدر بنا۔ ایک سال پہلے تک جب کوئی شہری مہنگائی کا رونا روتا تھا تو خان صاحب کے پیروکار کہتے تھے کہ مہنگائی ہے تو پھر کیا ہوا؟ مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، قومیں چوری اور کرپشن سے تباہ ہوتی ہیں۔ اسی طرزِ عمل نے سابق وزیراعظم کو اتنا پُراعتماد بنا دیا تھا کہ جب عوام مہنگائی سے نڈھال ہونے لگے تو خان صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں پیاز‘ ٹماٹر کے ریٹ کم کرانے کے لیے وزیراعظم نہیں بنا۔ البتہ انہوں نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ وہ کس چیز کے لیے اقتدار میں آئے تھے۔ البتہ ایک بات ضرور واضح ہو گئی کہ وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ عام آدمی کے مسائل آٹا، چینی، دال، پیاز، ٹماٹر اور بجلی، گیس کے بل ہیں۔ ایک صوبائی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم عوام کو جواب دہ ہی نہیں ہیں۔ پھر وہ کس کو جواب دہ تھے‘ اس کی انہوں نے زیادہ وضاحت نہیں کی، شاید عوام سے یہ لاتعلقی ہی وجہ بنی کہ ان کی اپنی پارٹی میں توڑ پھوڑ شروع ہوئی جو عدم اعتماد پر منتج ہوئی۔ عمران خان نے ملک میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کرکے نوجوان نسل کو اپنا ہمنوا بنایا تھا۔ ان کے دورِ حکومت میں ان کے مداح کہتے تھے کہ حکومت جیسی بھی چل رہی ہے‘ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل درپیش ہیں لیکن کم از کم وزیراعظم کا دامن تو صاف ہے؛ تاہم اب پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے کرپشن کیسز بھی سر اٹھانے لگے ہیں۔ توشہ خانہ سمیت کئی بے ضابطگیوں سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ پنجاب سے بھی کئی میگا کرپشن کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب اس جماعت کے حامی حقائق تسلیم کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ اگر کچھ کرپشن ہوئی ہے تو پھر کیا ہوا؟ پچھلی حکومتوں میں بھی تو کرپشن ہوتی تھی۔
حکومت جانے کے بعد پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے بیانات میں تلخی آ چکی ہے۔ قومی اداروں پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ اب اس پر قانون حرکت میں آیا ہے تو اس بار بھی غلطی کا اعتراف کر کے قوم سے معافی مانگنے اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کی یقین دہانی کے بجائے وہی ہٹ دھرمی والا جواب سامنے آیا کہ اگر یہ بیانات غلط ہیں تو کیا ہوا؟ ماضی میں بھی تو سیاست دان قومی اداروں پر اس طرح کی تنقید کرتے رہے ہیں۔ عمران خان اس وقت قومی سطح کے سب سے بڑے سیاسی رہنما ہیں، قوم نے انہیں بہت پیار اور بھرپور اعتماد دیا ہے۔ انہیں اس عوامی قوت کو بہتر طریقے سے صرف کرنا چاہیے نہ کہ وہ آئین و قانون اور ملکی اداروں ہی کو للکارنے لگیں۔ اب بھی وقت ہے کہ 'پھر کیا ہوا؟‘ کی گردان چھوڑ کر جو کچھ ہوا‘ اس پر قوم سے معافی مانگی جائے اور نوجوان نسل کو آئین و قانون کی پاسداری کی تلقین کی جائے کہ یہی ہم سب کے مفاد میں بہتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں